تحریر: عاصم قدیر رانا
: ’’روزویلٹ ہوٹل کی فروخت: تاریخی ورثہ یا قومی بے نیازی؟‘‘
نیویارک کے قلب میں واقع “روزویلٹ ہوٹل” پاکستان کا نہ صرف ایک قیمتی غیر ملکی اثاثہ ہے بلکہ قومی وقار، تاریخ اور سفارتی وجود کی جیتی جاگتی علامت بھی ہے۔ آج جب پاکستان شدید مالی دباؤ، قرضوں کی بھرمار اور زرمبادلہ کی قلت جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہے، تو حکومت کی جانب سے اس قیمتی اثاثے کی فروخت یا نجکاری پر غور کیا جا رہا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا روزویلٹ صرف ایک عمارت ہے؟ یا یہ وہ تاریخی حوالہ ہے جس سے ہماری سفارتی موجودگی، معاشی حکمت عملی اور قومی خودی جڑی ہے؟
⸻
روزویلٹ ہوٹل: ایک تاریخی جھلک
• قیام: 1924 میں قائم ہوا، مین ہیٹن کی 45ویں اسٹریٹ اور میڈیسن ایوینیو پر واقع
• پاکستانی ملکیت: پی آئی اے نے 1979 میں مکمل طور پر خرید لیا۔ اس وقت اس کی مالیت تقریباً $35 ملین تھی
• کمروں کی تعداد: 1,015
• قومی سرمایہ کاری: اس ہوٹل کو خریدنا اُس وقت ایک قابل فخر قومی فیصلہ سمجھا گیا، جس نے پاکستان کو نیویارک کے معاشی اور سفارتی مرکز میں ایک مستقل وجود عطا کیا
⸻
سیاسی شخصیات کا قیام: یادگار لمحات
روزویلٹ ہوٹل کی راہداریوں نے پاکستان کے کئی اہم ترین سیاسی اور عسکری رہنماؤں کے قدموں کے نشان محفوظ رکھے ہیں:
• ذوالفقار علی بھٹو: اقوام متحدہ میں خطاب کے دوران یہی ہوٹل ان کی قیام گاہ تھا، اور بعض تاریخی سفارتی ملاقاتیں یہیں ہوئیں
• محترمہ بینظیر بھٹو: نیویارک میں خواتین کانفرنسوں اور عالمی اجلاسوں کے دوران انہوں نے یہاں قیام کیا
• نواز شریف: اپنے دورِ حکومت میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران ہمیشہ روزویلٹ کو قیام کے لیے منتخب کیا
• جنرل پرویز مشرف: بطور صدر کئی بار روزویلٹ ہوٹل سے اقوام متحدہ گئے، کئی عالمی صحافیوں کو انٹرویوز بھی اسی ہوٹل میں دیے
• عمران خان: بطور وزیر اعظم 2019 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے دوران بھی روزویلٹ میں قیام کیا، اور ان کے اسٹے کو میڈیا نے نمایاں کوریج دی
• وزرائے خارجہ، دفاعی وفود، سفارتی مشن: ہر سال سینکڑوں حکومتی اور ریاستی شخصیات اسی ہوٹل کو سرکاری طور پر استعمال کرتی رہیں
⸻
کرایہ، آمدنی اور حالیہ لیز معاہدہ
• 2020 میں بند: کورونا وبا کے باعث مستقل آپریشنز بند کر دیے گئے
• 2023 سے کرایہ پر اقوام متحدہ مشن کو لیز:
• مدت: کم از کم 3 سال (2023-2026)
• ماہانہ آمدنی: تقریباً $2 ملین
• کل آمدنی: متوقع $36-40 ملین
• منافع: اخراجات نکال کر بھی اچھی خاصی خالص آمدنی حاصل ہو رہی ہے
⸻
فروخت یا خودکفالت؟
حکومت پاکستان کا مؤقف ہے کہ ہوٹل کی ری اسٹرکچرنگ کے لیے بھاری سرمایہ درکار ہے جو موجودہ مالی حالات میں ممکن نہیں۔ اسی بنا پر نجکاری یا جزوی فروخت کے آپشن پر غور ہو رہا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے:
- کیا حکومت نے کبھی سنجیدگی سے روزویلٹ کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے کاروباری ماڈل پیش کیا؟
- کیا روزویلٹ کو مقامی یا عالمی کمپنی کے ساتھ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں دینے کی کوشش کی گئی؟
- کیا پاکستانی ڈاسپورا کو اس اثاثے کے تحفظ میں شامل کیا گیا؟
⸻
ممکنہ فروخت کے نقصانات
• قومی وقار میں کمی: نیویارک میں پاکستانی پرچم کی موجودگی ختم ہو جائے گی
• مستقل آمدنی کا ذریعہ ختم: فوری رقم تو حاصل ہوگی، لیکن مستقل آمدنی کا سلسلہ بند
• سیاسی دباؤ: یہ تاثر ابھرے گا کہ پاکستان اپنی مالی نااہلی کے سبب اپنے اثاثے بیچنے پر مجبور ہے
• حکومتی کاروباری ناکامی کا اعتراف: یہ فروخت ریاستی انتظامی نااہلی کا ثبوت بنے گی
⸻
متبادل حل: فروخت کے بغیر آمدنی
• ری نوویشن اور ریلانچ: بین الاقوامی ہوٹل چینز (مثلاً Marriott, Hilton) سے شراکت
• سفارتی مرکز: اسے مستقل پاکستانی سفارتی و کلچرل سینٹر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے
• ڈائسپورا انویسٹمنٹ بانڈز: بیرون ملک پاکستانیوں سے اس ہوٹل کی بحالی کے لیے بانڈز کے ذریعے سرمایہ حاصل کیا جا سکتا ہے
• ٹریڈ اینڈ بزنس سینٹر: اسے پاکستانی برآمدات، اسٹارٹ اپس اور انویسٹمنٹ پروموشن کے مرکز کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے
روزویلٹ ہوٹل صرف اینٹوں، کمروں اور کرایے کی ایک عمارت نہیں، یہ پاکستانی خودمختاری، وقار اور ریاستی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کی فروخت فوری فائدہ تو دے سکتی ہے، مگر طویل المیعاد قومی مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ شارٹ ٹرم فائدوں کے بجائے قومی تشخص اور مالی خود کفالت پر مبنی طویل مدتی حکمت عملی اپنائے۔
ہمیں وہ قیادت درکار ہے جو اثاثے بیچے نہیں، انہیں بہتر انداز میں چلا کر اگلی نسلوں کے لیے محفوظ بنائے