کالم نگار: سارم حنیف
آج کل پاکستان کے طول و عرض میں دھوپ کی تپش نے جیسے آگ برسانا شروع کر دی ہے۔ سورج کی کرنیں نہ صرف زمین کو جلا رہی ہیں بلکہ انسانوں، حیوانوں، اور فطرت کے دکھ کی داستان بھی رقم کر رہی ہیں۔ کراچی سے لے کر لاہور تک، پشاور سے اسلام آباد تک، ہر شہر کی گلیاں گرمی کی چادر میں لپٹی ہوئی ہیں۔ یہ صرف موسم کی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک خاموش جنگ ہے جو ہماری بے حسی اور ماحول کے ساتھ کھیلنے کی سزا ہے۔
گرمی کی یہ شدت محض “موسم گرما” کا معمول نہیں رہی۔ ہسپتالوں میں ہیٹ اسٹروک کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، مزدوروں کے لیے دن کی روشنی میں کام کرنا دوبھر ہو گیا ہے، اور گھروں میں بجلی کے لوڈ شیڈنگ نے معصوم بچوں کو بے چینی کی نیند دینا شروع کر دی ہے۔ بزرگوں کی آنکھوں میں یہ سوال ہے کیا یہی وہ مستقبل ہے جس کا ہمیں خیال رکھنا تھا؟ غریب طبقے کے لیے تو یہ گرمی ایک آگ بن چکی ہے جس سے بچنے کے لیے نہ پانی کی سہولت ہے، نہ سایہ دار درخت بھی نہ ہو۔
اگر آپ کسی جنگل یا کھیت کے قریب سے گزریں تو درختوں پر بیٹھے پرندوں کی بے چانی دیکھی جا سکتی ہے۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ غائب ہو گئی ہے، اور کتوں کی آنکھوں میں پیاس کی داستان نظر آتی ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے خبردار کر رہے ہیں کہ جنگلات کی کٹائی اور آبی ذخائر کے خشک ہونے سے جانوروں کی نسلیں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ کیا ہم نے سوچا ہے کہ جب شہر کے سبزہ زار ختم ہو جائیں گے تو ہماری آنے والی نسلیں کس دنیا میں سانس لیں گی؟
یہ گرمی محض اتفاق نہیں۔ مارگلہ ہلز پر درختوں کی غیر قانونی کٹائی، شہروں میں کنکریٹ کے جنگل، اور صنعتی فضائی آلودگی نے ماحول کو ایک بھٹی میں تبدیل کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ ہم نے درختوں کو “رکاوٹ” سمجھ کر کاٹا، مگر یہ بھول گئے کہ یہی درخت ہمیں سانس لینے کے لیے آکسیجن دیتے ہیں۔
شجرکاری کی مہم میں ہر شہری کو کم از کم ایک درخت لگانے کی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ جنگلات کی کٹائی پر سختی سے پابندی لگائے۔ اور ہمیں ایسی آگاہی کی ضرورت ہے جو اسکولوں اور کالجوں میں ماحولیات کے مضامین لازمی کیے جائیں تاکہ نئی نسل فطرت کی اہمیت سمجھ سکے۔
بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے نظام کو فروغ دیا جائے۔
گرمی کی یہ لہر فطرت کا ایک اور انتباہ ہے۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو آنے والے وقتوں میں سانس لینے کے لیے ہوا، پینے کے لیے پانی، اور زندگی کے لیے سایہ تلاش کرنا مشکل ہو جائے گا۔ آئیے، اپنے بچوں کو یہ پیغام دیں کہ درخت ہمارے دوست ہیں اور اپنی زمین کو بچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ کیونکہ فطرت انتقام نہیں، ہماری لاپروائی کا نتیجہ دیتی ہے۔