Wednesday, May 21, 2025
spot_img
ہوماسلام آبادکوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی اصل قیمت پر نظرِ ثانی ناگزیر: ماہرین

کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی اصل قیمت پر نظرِ ثانی ناگزیر: ماہرین

اسلام آباد (این ای این)ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کو کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی ماحولیاتی وسماجی لاگت کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر نہ صرف ماحول کو آلودہ کر رہے ہیں بلکہ عوامی صحت اور معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو پہلے ہی 348 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔ انہوں نے یہ باتیں پالیسی ادارہ برائے پائدار ترقی کے زیراہتمام نیٹ ورک فار کلین انرجی ٹرانزیشن کے تحت منعقدہ اعلی سطح کے ایک گول میز اجلاس میں کہیں۔پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی اصل قیمت: ایک جامع نقطہ نظر کے موجوع پرنشست میں توانائی کے ماہرین، پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی ۔

نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (NTDC) کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر محمد ایوب نے خبردار کیا کہ کوئلے کی اصل قیمت وہ نہیں جو صارفین کے بلوں میں نظر آتی ہے بلکہ اس کے دور رس اثرات کہیں زیادہ مہنگے اور خطرناک ہیں۔ انہوں نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ ماحولیاتی اور سماجی اخراجات کو بجلی کے نرخوں میں شامل کرنے کی راہ میں کمزور ادارہ جاتی نظام اور سیاسی مزاحمت بڑی رکاوٹ ہیں، جسے مربوط حکمتِ عملی سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ایس ڈی پی آئی کے توانائی یونٹ کے سربراہ انجینئر عبید الرحمن ضیانے کہا کہ پاکستان پہلے ہی ماحولیاتی تباہ کاریوں کی بڑی قیمت چکا رہا ہے اور اس وقت ملک کو ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لئے 348 ارب ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ایس ڈی پی آئی کی توانائی کی تجزیہ کارر زینب بابر نے انکشاف کیا کہ صرف صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کی لاگت فی میگا واٹ آور 15.98 امریکی ڈالر ہے۔

ساہیوال کول پاور پلانٹ سے فی میگا واٹ آور 18,271.51 روپے جبکہ اینگرو پاور پلانٹ سے 40,392.72 روپے کے خارجی اخراجات کا بوجھ پڑ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کوئلے سے چلنے والے پلانٹس پاکستان کے کل کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کا تقریبا 27 فیصد حصہ پیدا کرتے ہیں۔ ساہیوال پلانٹ سے فی میگا واٹ آور 887 کلوگرام اور اینگرو پلانٹ سے 2154.05 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ ٹرانسپورٹ اور ماحولیاتی تباہی ان اخراجات کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ انہوں نے ان اخراجات کو قیمت میں شامل کرنے کے لئے یگوویئن ٹیکس جیسے مالیاتی طریقہ کار کی تجویز دی۔پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ (PPIB) کے ڈائریکٹر جنرل علی نواز نے تاہم اعداد و شمار پر نظرِثانی کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ہمیں کاربن ٹیکس نافذ کرنے سے پہلے اعداد و شمار کی درستگی کو یقینی بنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ پلانٹس زیرزمین پانی استعمال کرتے ہیں اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد انہیں بند کرنا کوئی عملی حل نہیں ہے۔پی پی ایم سی کی قرالعین جمیل نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ کاربن کے منفی اثرات کو بھی قومی توانائی پالیسی میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے زور دیا کہ اس کے لئے مربوط اور طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا 2030 تک 60 فیصد توانائی قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف دراصل ایک کاربن نیوٹرل سمت کی جانب واضح پیش رفت ہے، جو آئی ایم ایف کی تجویز کردہ کاربن لیوی سے بھی ہم آہنگ ہے، جس کا نفاذ جولائی 2025 سے متوقع ہے۔پرائیڈ (PRIED) کے سی ای او بدر عالم نے کہا کہ کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں میں صرف آلودگی کا مسئلہ نہیں بلکہ عوام کے وسائل سے مہنگا انفراسٹرکچر کھڑا کر کے منافع نجی کمپنیوں کو دیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کاربن ٹیکس صارفین کے بجائے براہِ راست کمپنیوں پر عائد ہونا چاہئے۔بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی ماحولیاتی ماہر ہیلن مشیات پریتی نے کہا کہ اگرچہ ہم ابتدائی طور پر گیس پر انحصار کر رہے ہیں لیکن ہم اپنے قابل تجدید توانائی کے حصے کو بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان کا قابل تجدید توانائی میں اضافہ ایک حوصلہ افزا مثال ہے۔اختتامی کلمات میں شکیب الہی نے ایس ڈی پی آئی کی ٹیم کو اس اہم موضوع پر اعداد و شمار پر مبنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے پر سراہا اور کہا کہ یہ رپورٹ پاکستان کے لئے ایک باخبر اور ذمہ دارانہ توانائی کے مستقبل کی تشکیل میں اہم کرداراداکریگی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔