تحریر: عاصم قدیر رانا
دنیا بدل رہی ہے۔ اب جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں، خوراک، پانی، توانائی اور معیشت سے لڑی جا رہی ہے۔ جس ملک کے گودام بھرے ہوں، اس کا دشمن بھی سوچ کر حملہ کرتا ہے۔ لیکن افسوس کہ پاکستان میں جس کسان کے ہاتھ میں یہ طاقت تھی، وہ آج خود کمزور، تنہا اور بے بس کھڑا ہے۔
پاکستانی کسان: مسائل، محرومی اور حکومتی بے حسی
پاکستان کا کسان اپنی محنت سے گندم، کپاس، گنا، چاول اور سبزیاں اگاتا ہے، لیکن اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں آتا۔ 2024-25 میں پنجاب حکومت نے گندم کا سرکاری ریٹ 3900 روپے فی من مقرر کیا، مگر مارکیٹ میں کسان سے 3500 روپے یا اس سے کم میں خریدی گئی۔ کپاس، جو کبھی “سفید سونا” کہلاتی تھی، آج کسان کے لیے دھوکہ بن چکی ہے۔ نہ پانی میسر، نہ کھاد سستی، نہ بیج قابلِ بھروسا، نہ کوئی ایسا نظام جو کسان کے نقصان کا ازالہ کرے۔
کسان کو نہ زرعی قرض آسانی سے ملتا ہے، نہ اس کی فصل کا کوئی بیمہ ہوتا ہے۔ وہ آڑھتی، مڈل مین، ذخیرہ اندوز، اور کرپٹ پٹواریوں کے درمیان پھنسا ہوتا ہے۔ اسے نہ حکومت پر اعتماد ہے نہ نظام پر۔ وہ روز جیتا ہے، روز مرتا ہے۔
بھارت کا کسان: سہولت، تحفظ، ترقی
اب سرحد کے اُس پار دیکھیں، تو بھارتی پنجاب میں کسان کی زندگی مختلف ہے۔ حکومت فصل سے پہلے اعلان کرتی ہے کہ کس فصل کا Minimum Support Price (MSP) کیا ہوگا۔ یعنی کسان کو یقین ہے کہ اگر مارکیٹ میں ریٹ گر بھی جائیں، تو حکومت اس سے مقررہ نرخ پر فصل خریدے گی۔
مثلاً 2024-25 میں بھارتی حکومت نے گندم کا MSP 2275 روپے فی کوئنٹل (تقریباً 6100 پاکستانی روپے فی من) مقرر کیا۔ اسی طرح کپاس، مکئی، دھان، دالیں، سرسوں – ہر فصل کی قیمت پہلے سے طے شدہ ہے۔
بھارتی کسان کو:
• زرعی قرضے آسان شرائط پر
• بجلی اور ڈیزل پر سبسڈی
• بیج، کھاد اور زرعی مشینری پر رعایت
• فصل بیمہ اسکیم میں تحفظ
• سالانہ نقد امداد (PM-Kisan اسکیم کے تحت)
میسر ہے۔
اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارتی کسان نہ صرف خوشحال ہے بلکہ قومی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
عالمی حالات: خوراک اب قومی سلامتی کا ہتھیار
روس-یوکرین جنگ، اسرائیل-ایران کشیدگی، چین-امریکہ مقابلہ، اور جنوبی ایشیا میں بڑھتا تناؤ، سب یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اب اصل طاقت خوراک ہے۔ خوراک کی خودکفالت دفاع سے بھی زیادہ ضروری ہو چکی ہے۔
• اگر دشمن آپ کا تیل بند کرے، تو آپ گزر کر سکتے ہیں
• اگر دشمن آپ کی گندم روک دے، تو عوام سڑکوں پر نکل آتی ہے
بھارت نے یہ حقیقت پہچان لی ہے۔ اسی لیے وہ اپنے کسان کو قومی اثاثہ سمجھ کر سہولت دے رہا ہے۔ اس کے گودام بھرے ہیں، وہ دنیا میں چاول کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے، اور بحران کی صورت میں اپنے عوام کو پال سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے لمحۂ فکریہ
پاکستان اب بھی کسان کو سب سے نچلے درجے پر رکھتا ہے۔ زرعی بجٹ کم، پالیسی بے سمت، اور نظام کرپٹ ہے۔ اگر خدانخواستہ خطے میں جنگ چھڑتی ہے، تو پاکستان خوراک کی کمی کا شکار ہو سکتا ہے، کیونکہ ہم نے آج تک اپنے کسان کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ:
• ہر فصل کا MSP طے ہو اور نافذ العمل بنایا جائے
• کسان کو کھاد، بیج، ڈیزل پر سبسڈی دی جائے
• زرعی قرضوں کو آسان اور شفاف بنایا جائے
• فصلوں کا بیمہ کیا جائے
• ذخیرہ اندوزی اور مڈل مین کے نظام کو ختم کیا جائے
• قومی سلامتی پالیسی میں زرعی تحفظ شامل کیا جائے
⸻
کسان کو بچانا ملک کو بچانا ہے۔ خوراک کی جنگ میں زندہ وہی رہے گا جس کے کھیت آباد ہوں، اور کسان مطمئن۔