تحریر امبرین علی
دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیاں روز بروز زور پکڑ رہی ہیں ۔پاکستان کی بات کریں تو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آئے روز موسم بدل رہا ہے نومبر میں شدید سردی کی بجائے موسم میں کنفیوژن ہے ۔دن کے وقت دھوپ تیز رات کے وقت سردی کی شدت محسوس کی جاتی ہے ،ایسی کئی تبدیلیوں کو لے کر پاکستان نے کاپ انتیس میں شرکت کی ۔
پاکستان نے کاپ انتیس میں کلائمئٹ فنانسنگ پر فوکس کیا کیونکہ ان تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے فنانسنگ کی اشد ضرورت ہے جبکہ پاکستان دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلی کے انتیسویں ویں اجلاس میں موسمیاتی مالیات پر دو الگ الگ پینل مباحثے منعقد کیے۔پاکستان، جو موسمیاتی اثرات کے حوالے سے دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں مسلسل شامل رہا ہے۔ان پینلز میں موسمیاتی مالیات کی فوری ضرورت پر بات کی گئی، خاص طور پر عالمی جنوب کے لیے، جو موسمی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے حالانکہ اس کا عالمی اخراجات میں کم حصہ ہے۔
پہلا پینل، جس کا عنوان “موسمیاتی انصاف کی طرف عدالتی راستے – عالمی تجزیے کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے عدالتی نقطہ نظر” تھا، کی میزبانی پاکستان کے سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے کی۔ اس پینل میں سینیٹر شیری رحمان، چیئرپرسن سینٹ اسٹینڈنگ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی، اور نیپال، بیلجیم، برازیل اور پاکستان کے سینئر ججز جیسے ممتاز شخصیات شامل تھیں۔ اس میں موسمیاتی مالیات کے بڑھتے ہوئے فرق پر بات کی گئی، جس میں ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے 4 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہے۔اسوقت اگر پاکستان کی موسمیاتی تبدیلیوں میں رینکنگ کی بات کریں تو پاکستان مجموعی طور پر 30 ویں نمبر پر ہے، جس سے یہ درمیانے کارکردگی والے ممالک میں شامل ہوتا ہے۔ پاکستان کو ماحولیاتی پالیسی کے زمرے میں کم، قابل تجدید توانائی میں بہت کم، اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور توانائی کے استعمال میں زیادہ درجہ حاصل ہے۔تاہم کاپ انتیس میں پاکستان نے ایک فٹ بال پر لکھے اپنے پیغامات کے ذریعے بتایا کہ اسوقت پاکستان ان تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کافی کچھ کرنا چاہ رہاہے حتی کے زیر زمین پانی میں موجود زندگی کو بھی محفوظ کرنا چاہ رہا ہے۔
پاکستان نے کاپ انتیس میں اپنا پویلین لگایا اور بڑے پیمانے پر موسمیاتی تبدیلیوں کے ایشو پر پینل ڈسکشن کی دوسری جانب بھارت کی بات کریں تو بھارت کو بھی موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے لیکن کاپ انتیس میں بھارت نے کوئی پولین نہیں لگایا جبکہ اس سال کے اجلاس میں بھارتی وفد کی قیادت سیکرٹری وزارت ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی لینا نندن، نے کی ہے اور کاربن پالیسی اور فنانسنگ کی بات کی جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کاپ انتیس میں شرکت نہیں کی جس سے کہیں نہ کہیں بھارت کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں پر عدم توجہی دیکھی گئی ۔
جبکہ پاکستان کے لیے کوپ 29 میں سب سے اہم پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ خصوصی طور پر پاکستان کے لیے ہیکیومن نے پہلا کلائیمٹ انویسٹمنٹ فنڈ تشکیل دیا ہے،یہ فنڈ ایگریکلچر پر خاص توجہ کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔
پاکستان کی جانب سے گرین فنانسنگ، گرین اکانومی کاربن پالیسی کی بات کی گئی ہے، پاکستان کے لیے یہ موقع انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اور لگ رہا ہے کہ جسطرح پاکستان نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پلان تیار کیا ہے تو یقینا پاکستان دو ہزار بائیس سے شروع ہونے والی ان موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کر لے گا۔