اسلام آباد (سب نیوز )سینئر صحافی و اینکر پرسن، کالم نویس اور تجزیہ کار جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ آج بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پیپلزپارٹی کی حکومت بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کیلئے پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کی عمران خان سے بات چیت ہوئی تھی، لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن کے پاس اس حوالے سے تمام تفصیلات موجود ہیں۔
انھوں نے کہا کہ آج بھی لطیف کھوسہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں لطیف کھوسہ کا مقف ہے کہ پہلے ن لیگ اور ایم کیو ایم سے نمٹیں، جب کہ پیپلزپارٹی کو اپنے ساتھ ملائیں اور ان کے ساتھ ملکر حکومت بنائی جائے۔تاہم یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی نے ملکر کو حکومت بنا بھی لی تو وزیر اعظم کون ہوگا ؟ اس پر بات کرتے ہوئے جاوید چوہدری نے کہا کہ دونوں کی حکومت بننے کی صورت میں پیپلزپارٹی، بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم بنائے گی اگر عمران خان اس پر راضی ہیں تو یہ سودا (حکومت سازی) ہوسکتا ہے، اگر وہ (عمران خان) اس پر تیار نہیں تو پھر پیپلزپارٹی کو سوٹ نہیں کرتا کہ وہ بانی پی ٹی آئی کو وزارت عظمی کی سیٹ دے یا ان کے کسی بندے کو وزیر اعظم بنا دیں، کیونکہ اس کے بعد (یعنی پی ٹی آئی کو وزارت عظمی دینے کے بعد) پی پی خود موجودہ صورتحال کی طرح رہے گی جو انھیں ( پیپلزپارٹی) کو سوٹ نہیں کرتا، اس کی بانسبت انھیں (پی پی پی) کو میاں برادران کے ساتھ سیٹ اپ زیادہ سوٹ کرتا ہے کہ پیپلزپارٹی حکومت میں ہے بھی اور نہیں بھی۔
جاوید چوہدری کا کہنا تھا کہ لطیف کھوسہ کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو ایک ٹیبل پر بیٹھا لیں اور اگر بیٹھا لیں گے تو سیناریو (منظر نامہ) تبدیل ہوجائے گا۔جاوید چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگائی تو جا سکتی ہے، اس حوالے سے حکومت کو فیصلہ کرنا ہے لیکن پابندی کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا، کیونکہ عدالتیں متحرک ہیں۔ آپ عدالتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ حکومت کو پابندی عائد کرنے کے حوالے سے بنیادی وجوہات پیش کرنا ہوں گی۔
موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں جاوید چوہدری نے کہا کہ لگتا ہے کہ حکومت، طاقت کا مظاہرہ کرکے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کے حامیوں کو باور کرانا چاہتی ہے کہ جب تک وہ نہیں چاہے گی تو پی ٹی آئی والوں کو راحت و چین نصیب نہیں ہوگا۔ موجودہ محاذ آرائی کے حوالے سے سینئر صحافی و اینکر پرسن نے کہا کہ لڑائی ریاست اور عدالتوں کے درمیان ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ عدلیہ (ہائی کورٹس اور سپریم کورٹس) میں 125 ججز ہیں اور اکثریت عمران خان کے ساتھ ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی عوام سے ہیں اور وہ عوام کی نبض سے آگاہ ہیں اور عوام بظاہر عمران خان کے ساتھ ہے۔