اسلام آباد(آئی پی ایس) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں زیر سماعت سپر ٹیکس سے متعلق کیس میں ایف بی آر کے وکیل رضا ربانی کے دلائل جاری رہے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ صوبوں کا معاملہ انتہائی اہم ہے، یہ پیسے پورے ملک سے اکٹھے ہورہے ہیں تو اس پر تمام صوبوں کا حق ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں5 رکنی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کی، دوران سماعت ایف بی آر کے وکیل رضا ربانی عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 80 ارب میں سے 42.5 فیصد شیئر وفاق کے پاس جائے گا تو باقی کہاں جائیں گے؟ رضا ربانی نے کہا کہ وفاقی حکومت کو یہ شیئر این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جس مقصد کے لیے پیسہ اکٹھا ہو اسی پر ہی خرچ ہونا چاہیے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ 80ارب سپر ٹیکس سے اکھٹے ہونے پر اسکی تقسیم کیسے ہوگی؟ وکیل رضا ربانی نے بتایا کہ یہ پیسہ وفاقی حکومت کے ذریعے خرچ ہوگا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیاکہ یہ متاثرین کون ہیں جن پر یہ فنڈز خرچ ہونے ہیں؟ رضا ربانی نے موقف اپنایاکہ یہ فنڈز خیبر پختونخوا اور فاٹا کے متاثرین دہشت گردی کے لیے ہیں، جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا جب بجٹ تقریر میں واضح ہے تو یہ پیسے پورے ملک میں کیوں خرچ ہوں گے؟ رضا ربانی نے کہا دہشت گردی کےخلاف جنگ قومی مسئلہ ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ صوبوں کا معاملہ انتہائی اہم ہے، این ایف سی بھی اسی لیے بنایا گیا، اگر میں آپ کے نام پر پیسہ لوں اور خرچ نا کروں تو؟ آپ تو 18ویں آئینی ترمیم کے آرکیٹیکٹ ہیں، ایسے تو آپ این ایف سی ایوارڈ کا ستیاناس کردینگے، یہ پیسے پورے ملک سے اکٹھے ہورہے ہیں تو اس پر تمام صوبوں کا حق ہے۔
رضا ربانی نے کہا میں معذرت خواہ ہوں کہ عدالت کو درست سمجھا نہیں پا رہا، این ایف سی ایوارڈکے تحت تمام پیسے فیڈرل کونسالیٹڈ فنڈ میں اکٹھے ہوتے ہیں، صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت حصہ مل رہا ہے۔
کمپنیز کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آئے اور استدعا کی کہ میری گزارش ہے کہ آڈیٹر جنرل اور سیکریٹری فنانس کو بلایا جائے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل کا جواب آنے دیں، پھر دیکھتے ہیں انہیں بلانے کی ضرورت ہے یا نہیں، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔ ایف بی آر کے وکیل رضا ربانی کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔