Tuesday, June 24, 2025
spot_img
ہومبریکنگ نیوزآئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح،سابق ایم پی اے عائشہ نواز کی درخواست پر ستماعت 30ستمبر کو ہو گی

آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح،سابق ایم پی اے عائشہ نواز کی درخواست پر ستماعت 30ستمبر کو ہو گی

اسلام آباد (سب نیوز )سابق ممبر پنجاب اسمبلی عائشہ نواز چوہدری نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کر دی۔درخواست میں آئین کے آرٹیکل 63-A کی تشریح کی درخواست کی گئی ہے جو منحرف ممبران اسمبلی کی قانونی حیثیت سے متعلق ہے۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا گیا کہ منحرف قانون سازوں کے ووٹ شمار نہیں کیے جائیں گے۔ سپریم کورٹ نے 5 رکنی بنچ کے سامنے کیس کی سماعت 30 ستمبر 2024 کو مقرر کی ہے۔ وہ واحد متاثرہ سیاسی شخصیت ہیں جنہوں نے نظرثانی دائر کی تھی۔

اپنی درخواست میں انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ ضروری ہے کہ 63-اے کو سمجھنے کے لئے پارلیمانی نظام کی روح کو سمجھیں۔ یہ صدارتی نظام نہیں ہے جہاں ایک فرد واحد کی عقلی معراج کو تسلیم کرتے ہوئے فیصلہ سازی کا کلی اختیار دے دیا جائے بلکہ پارلیمانی نظام اجتماعی قیادت کا شعور دیتا ہے جہاں منتخب حکومت کو ہر فیصلہ اجتماعی طور پر کرنا ہے، یا تو کابینہ کی مشاورت سے،یا پارلیمانی پارٹی کی مشاورت سے،یا پھر اسمبلی کی مشاورت سے اور فیصلہ ووٹ کی بنیاد پر ہونا ہے۔ ورنہ تو بہت آسان تھا کہ بجائے 336 ارکان کی تنخواہوں اور مراعات پر ٹیکس گزار عوام کا پیسہ خرچ کرنے کے ، آپ الیکشن کے نتیجے میں ہر جتنے والی جماعت کو جیتی گئی نشستوں کے تناسب سے ووٹ بانٹ دیتے اور متعلقہ لیڈر خود ہی اتنے ووٹ جہاں اس کا دل چاہتا ڈال دیتا۔ ممبران کی ضرورت کیا تھی؟

پارلیمانی نظام اسی لئے ممبر کا ووٹ صرف اور صرف متعلقہ ممبر ہی کی ملکیت سمجھتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ قیادت آمریت میں تبدیل نہ ہو۔ کیا برطانیہ جو پارلیمانی نظام کی ۔اں ہے وہاں چرچل کے پوتے نے دو برس پہلے کنزرویٹو پارٹی کا ممبر ہونے کے باوجود پارٹی کے خلاف ووٹ نہیں دیا؟ یہ درست ہے کہ اگلے انتخاب میں پارٹی نے اسے ٹکٹ نہیں دیا یک۔ یہ تو نہیں ہوا کہ اس کا ووٹ شمار نہیں ہوا۔اس متنازع فیصلے نے آئین کے آرٹیکل 91 کی شق 7 کو عملا ختم کر دیا ہے جو وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد سے متعلق ہے۔ ظاہر ہے اگر ایک جماعت کو کلی اکثریت حاصل ہے تو اس جماعت کے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد تبھی آئے گی اگر پارلیمانی جماعت میں اختلاف آ جائے اور وزیر اعظم اختلاف کرنے والے ارکان کی رائے کا احترام نہ کرے۔

آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ 1977 کے مارشل لا کا ایک جواز یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وزیر اعظم کی آمرئیت قائم ہو گئی تھی اور اسی کے خلاف آٹھویں ترمیم لائی گئی تھی جسے عدالتوں نے balancing act سے تعبیر کیا تھا۔ آج عدالت فرد واحد کی آمریت کی راہ ہموار کر رہی ہے۔پارٹی قیادت کو مشترکہ سیاسی فلسفے پر قائم رکھنا اور متفقہ منشور کو نظر انداز کرنے کی صورت میں اس کے خلاف آواز اٹھانا سیاسی کارکن اور متعلقہ رکن اسمبلی کا بنیادی سیاسی فرض ہے ورنہ پارلیمانی جمہوریت فسطائیت یعنی fascism بن جائے گی جہاں ہٹلر کی ہاں میں ہاں ملانے کا مطلب جمہوریت ہے اور اختلاف کرنے کا مطلب غداری جس کی سزا ا کا بس چلے تو موت ورنہ سرعام گالم گلوچ اور عامیانہ حملے۔ عائشہ نواز چوہدری کا قصور یہی ہے کہ اس نے جمہوریت کو فسطائیت بنے سے روکا ہے۔ اور جب عدالت کا فیصلہ فسطائیت کے فروغ کا سبب بن رہا ہے تو وہ اس کے خلاف بھی سینہ سپر ہو کر عدالت کا دروازہ دوبارہ کھٹکھٹا رہی ہے۔یاد رکھئے کہ ابھی ایک حالیہ فیصلے میں عدالت عظمی نے تسلیم کیا ہے کہ فیصلے لکھتے ہوئے ججوں سے بھی غلطی ہو سکتی ہے جسے کھلے دل سے تسلیم کرتے ہویے تصیح کی جا سکتی ہے

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔