Monday, December 23, 2024
ہومکالم وبلاگزروشن دریچے عنوان

روشن دریچے عنوان

وزیر اشفاق

دورحاضرکاگلگت بلتستان اور نوجوان کا کردار


وقت ابھی آپکی مٹھی میں ہے وقت کی قدر کریں وقت منصف بھی ہیں وقت نوازتا بھی ہیں اور یہ وقت ہی ہیں جو رولاتا بھی ہیں۔گلگت بلتستان کے نوجوانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہ باصلاحیت مٹی سماج سے محبت رکھنے کے باوجود گلگت بلتستان میں موجود رو ہی نظریات قوم پرستی اور وفاق ہرستی کے نظریات کو تاریخ کے آئینے میں دیکھنے اور انکی افادیت کو سمجھنے ان نظریات اور انکو فروغ دینے والے آکابرین کے کردار پر تحقیق سے بیگانے ہو کر انکی اندھی تقلید کے غلام ہوچکے ہیں جس کا نتیجہ شخصیت پرستی, سچ کا فقدان، جھوٹ, مبالغوں کا غلبہ اور معاشرتی شعور معاشرے کی بہتر تشکیل کے بجائے ہمارے معاشرے کی بہتر تصویر ان دو نظریات کی درمیان مسخ ہو گئی نوجوانوں کی وفاق پرست اور قوم پرست جماعتوں کی اندھی تقلید کے غلبے کا ایک سبب تاریخ سے دوری بھی ہے. حقیقت یہ ہیں کہ تاریخ ہی ہے جس سے ہم مسائل کی جڑ تک پہنچتے ہیں کہ ان مسائل کی ابتدا کہا سے ہوئی اور یہ مسائل کن وجوہات سے پیدا ہوئے اور ان مسائل کا حل کرنے کے لئے ماضی کا تجزیہ ہمیں تاریخ سے ہی ملتا ہے۔اور ہمارے ہاں موجود ان دو نظریات کے پیروکاروں نے ہماری تاریخ کو مسخ کردیا جس سے ہماری قومی شناخت بھی گم ہو گئی ہے اور ہمارا آج کا نوجوان اپنی تاریخ کو ان نظریات کی عینک سے پڑھتا ہے۔آج ہم بیک وقت پاکستانی بھی ہیں اور نہیں بھی ہیں اس شناخت کو متنازعہ رکھنے میں پاکستان میں رائج استحصالی نظام کے مختلف دھڑے جن میں فوج، عدلیہ، بیوروکریسی،سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور میڈیا شامل ہیکسی بھی قوم کو اسکی شناخت سے محروم کرنے کے لئیے سب سے پہلے انہیں انکے ماضی تاریخ سے کاٹ دیا جاتا ہے اسے متنازعہ رکھا جاتا ہیوجہ صرف ہمارے ہاں کے سیاسی آکابرین وا قوم پرست ہیں جو گلگت بلتستان کے نوجوانوں میں اپنی سیاست اور مفادات کی دکان کا کاروبار منافع بخش بنانا چاہتے ہیں اور انہیں قوم یا معاشرے کے اجتماعی اور تاریخی تسلسل سے کاٹ رہیے ہیں اس لئیے ہمارے معاشرے کی مثال آندھے، گونگے اور بہرے کی مانند ہوگی اور اس معاشرے میں آندھی تقلید جیسے خطرناک امراض نے جنم لے لیا اور یوں ہمارے نوجوانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح جہاں بھی لے جانا چاہا وہ ایک جھنڈ کی شکل میں با آسانی لے جانے میں کامیاب رہیں۔ماضی اور حال میں پاکستان کے ساتھ بھی کچھ ایسے ہی کھیل کھیلے گئے جس کی کامیابی ہم پارلمینٹ میں موجود لوگوں کے اقتدار کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسی بہت سی قوم پرست، سیاسی، مذہبی اور اصلاحی جماعتیں ہیں جو پچھلی کئی دھائیوں سے ہماری اس معصوم اور لاچار عوام کے ساتھ یہی کھیل کھیلتے ہوئے آرہی ہیں۔ان لوگوں کے کھیل کا سب سے بڑا حصہ یہ ہے کہ ان مذہبی سیاسی قوم پرست جماعتوں نے ہمارے معاشرے کو اجتماعی تاریخ سے کاٹ کر انفرادی یا پھر ایک ہی جماعت اور تسلسل کے اکابرین اور لیڈروں کو علیحدہ علیحدہ کر کے لوگوں کے شعور میں شخصیت پرستی کا زہر گھول دیا ہے. ہم اپنے معاشرے میں ایسی کئی جماعتیں کا کردار دیکھ سکتے ہیںحالانکہ اگر تاریخ کو پڑھا جائے تو ہمارے آکابرین ایک ہی مقصد کے لوگ تھے اور ان سب کا ایک ہی مقصد سامراج سے مظلوم انسانیت کی اور اپنے خطے کی مکمل آزادی تھا اور ساری جدوجہد اور ان کی قربانیاں آزاد تشخص طبقے کے لئے تھیں نہ کہ محض قوم, یا فرقے کی بنیاد پر الحاق پاکستان کے حامیجبکہ دور حاضر کے آکابرین مذہبی سیاسی قوم پرست جماعتوں نے شخصیت پرستی اور تاریخی تسلسل سے معاشرے کو کاٹ کر عوام کے اندر پھوٹ، فرقہ پرستی،اندھی تقلیداور معاشرے میں ایک ہی تاریخ کو پارہ پارہ کر کے ایک دوسرے سے نفرت جیسی برائیاں پیدا کر دی ہیں کیونکہ انکے استحصال اور اقتدار کے لئے تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو کی حکمت عملی بہت ہی اہم اور بنیادی ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کے آج کے نوجوان پر لازم ہے کہ اگر وہ اپنے مٹی معاشرے سماج اور اقدار سے مخلص ہے جسکی وہ دعویداری بھی کرتے ہیں تو آج کے ان سیاسی قوم پرستی مذہبی استحصالی کھلاڑیوں کی علمی , سیاسی اور سماجی غلامی سے آزاد ہو کر تاریخ, سیاسیات اور سماجیات سے براہ راست تعلق پیدا کرے اور حقائق اور نظریات تک عقلی،شعوری اور علمی رسوخ حاصل کرے۔ اگر آج کے نوجوان نے اس بنیادی المیہ پر سستی،کاہلی دیکھا کر منہ پھیرا تو لوٹنا اس طبقے کی فطرت ہے اور ہماری آئندہ آنے والی تمام نسلیں نسل در نسل انکی غلام رہیں گی اور اسکے زمہ دار آج کے گلگت بلتستان کا نوجوان ہوگا گلگت بلتستان میں رائج استحصالی نظام میں طاقت ، وسائل اور اختیارات پر زیادہ سے زیادہ اجارہ داری قائم کرنے کے لئے کشمکش جاری رہتی ہے۔ ہردھڑا اپنے آپ کو عوام کا نمائندہ اور خیر خواہ بنا کر پیش کرتا ہے تاکہ عوام کی ہمدردی کو اپنے حق میں استعمال کرسکے ۔عوام کے جذبات کو ابھارنے کے لئے مذہب، جمہوریت، آزاد شناخت، احتساب اور ترقی جیسے مختلف نعروں کا بھی بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ آپس میں باہم دست و گریباں یہ تمام دھڑے رائج الوقت سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے استحصالی کردار پر ایک دوسرے کے ساتھ سو فیصد متفق ہیں اوراسی کو معاشرے کی بقا اور ترقی کا واحد زریعہ سمجھتے ہیں۔ اختلاف صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ نظام کی ڈرائیونگ سیٹ پر کون بیٹھے گا اور کس کا حصہ کتنا ہوگا۔ اس ضمن میں سب سے بڑا المیہ تب پیش آتا ہے جب معاشرے کا پڑھا لکھا ، ذہین اورباصلاحیت نوجوان مختلف عنوانات کے تحت ان میں سے کسی ایک دھڑے کی حمایت میں اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحتیں استعمال کرنے لگتا ہے۔کسی کے لئے جمہوریت کا عنوان کشش رکھتا ہے تو کوئی مذہب کے نعریسے کوئی قوم پرستی سے متاثر ہوتا ہیاور کوئی کرپشن کیخاتمے اور گڈگورنس کے وعدوں میں ملک و قوم کی نجات تلاش کرتا ہے۔ یہ نوجوان اپنے علم اور صلاحیت کی بنیاد پر نہ صرف اپنی پسند کے دھڑے کے دفاع میں پرجوش دلیلیں دیتا ہے بلکہ اپنے دھڑے کو دوسروں سے کم برا اور برتر بھی قرار دیتا ہے۔ اپنے دھڑے کی خامی سامنے آنے پر وہ فورا مخالف دھڑے کی متوازی کمزوری سامنے لا کر اپنے دھڑے کی بالادستی اورپارسائی کو سند جواز بخشتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہیں کہگلگت بلتستان کا آج کا نوجوان بلخصوص سرکاری اہلکار بیوروکریسی اپنی اقابلیت اور دائرہ کار حلقہ اثر کے ساتھ عملی جدوجہد سے اپنے معاشرے میں موجودہ نظام کو قابل اصلاح بنانے کے فرائض سرانجام دے نہ کہ حکومتی و سیاسی آکابرین کے درباری کا کردار نبھائے گلگت بلتستان کے سرکاری اہلکار- بیوروکریسی محکمانہ قوانیین کے دائرہ کار اور آپس میں مربوط روابط میں رہ کر سماج کے خادم بن جائے اپنے زور بازو پر بھروسہ کر کے کوئی اجتماعی شعوری جدوجہد کا آغاز کریں تو یقین جانئیے۔ وہ یہ سب کام اپنے تئیں ملک و قوم اورمعاشرے کی بہتری کے لئے ہی سر انجام دینگے جس کے خواب سیاسی قوم پرستی مزہبی آکابرین دیکھاتے ہیں -مگر صد افسوس کہ ہمارے مٹی کے سپوت سرکاری اہلکار . بیوروکریٹ اکثریتی حکومتی و سیاسی آکابرین کے درباریوں کا کردار ادا کر رہیے ہیں اور انکا مواخذہ کرنے والے میرے اہل قلم بھائی میرے بہت سارے مواخذہ کرنے کا جزبہ رکھنے کے باوجود اداروں کے مالکان کی وضع کردہ پالیسوں کی وجہ سے مواخذہ کرنے میں بے بس ہیں اور کچھ صحافی بھائی بہتی گنگا سے فیض یاب .ان حالات میں وقت گزرنے کے ساتھ سیاسی، معاشی اور سماجی حالات بدسیبدتر ہوتے جاتے ہیں معاشرتی حوالے سے کسی بھی قسم کی بہتری کی امید دم توڑنے لگتی ہے جس سے وہ نوجوان جو زیر تربیت زیر علم ہوتا ہے اسکے مزاج میں ایک جھنجھلاہٹ اوربیزاری کا غلبہ ہونے لگتا ہے۔ کسی وقت میں انتہائی پرامید رہنے والا یہ نوجوان خود مایوسی کی تصویر بننے لگتا ہے۔ چونکہ تاریخ معاشرت سماجیت سامراجیت معاشیت کے علم سے ناآشنائی کی وجہ سے وہ موجودہ ایسے درپیش حالات سے مایوس ہوتا ہی ہے اور جس محفل میں شریک ہوتا ہے وہاں بھی اپنے موجودہ معاشرتی سیاسی ‘ علم’، ‘تجربے’ اور ‘فلسفے’ کی بنیاد مایوسی، بے عملی اورمنفی ذہنیت پروان چڑھانے کا باعث بنتا ہے اور اپنے جیسے مزید کئی نوجوانوں کی فکر وعمل میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔آج ضرورت اس بات کی ہمارا نوجوان جذباتیت،مایوسی، سطحی مطالعے و مشاہدے اور جلد بازی کے رویوں سے بچتے ہوئے معاشرے میں رائج سرمایہ داری نظام، اس کے مختلف اداروں اور ان کے باہمی تعلقات کا شعوری ادراک حاصل کرے۔کھلے اور مثبت ذہن کے ساتھ مطالعے، غوروفکر اور باہمی مکالمے کے عمل کو آگے بڑھائے۔اپنے وقت کو قیمتی اور کارآمد بنائے اور رائج الوقت استحصالی نظام کے خاتمے کے لئے جس باصلاحیت اور باشعور اجتماعیت کی ضرورت ہے، اس کے قیام میں اپنا کردار ادا کرے اپنی سوچ سے شدت پسندی کو ختم کر کے قوموں کی زندہ رہنے کے لیے نوجوان نسل کی تربیت بہت ضروری ہے اور ہم کو اپنی نوجوان نسل کو سکھانا ہو گا کہ وہ دنیا کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں ان کو جدید ٹیکنالوجی کا استعمال سکھانا ہو گا تعلیم کے میدان میں ہم بہت پیچھے ہیں ہم آج بھی لارڈ میکالے کا بنایا ہوا نصاب تعلیم استعمال کر رہے ہیں ہماری نوجوان نسل کو خود محنت کرنا ہو گی کتب بینی کا شوق پالنا ہو گا تحقیق کو عادت بنانا ہو گا خدا کے لیے میری قوم کے جوانوں اپنے آپ کو بدلو آپکے بدلنے سے گلگت بلتستان بدلے گا آپکی جدوجہد سے گلگت بلتستان کا آنے والا کل روشن ہوگا آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ ہوگاوقت ابھی آپکی مٹھی میں ہے وقت کی قدر کریں وقت منصف بھی ہیں وقت نوازتا بھی ہیں اور یہ وقت ہی ہیں جو رولاتا بھی ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔