نیویارک: امریکی محکمہ انصاف نے حماس کے سرکردہ رہنماؤں کے خلاف گزشتہ برس 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں ہونے والے حملوں میں ان کے کردار پر مجرمانہ الزامات کے تحت فردِ جرم عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جسے فلسطین کی مزاحمتی تنظیم کے خلاف بڑے پیمانے پر علامتی اقدام کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
حماس کے 6 سرکردہ رہنماؤں، جن میں سے 3 شہید ہوچکے ہیں، کو گزشتہ روز منظر عام پر آنے والی شکایت میں نامزد کیا گیا ہے۔
شہید ملزمان میں حماس کے سابق سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ ہیں، جنہیں جولائی میں تہران میں قتل کر دیا گیا تھا، محمد الضیف، جو جولائی میں غزہ پر اسرائیلی فضائی حملے میں جبکہ مروان عیسیٰ کو اسرائیل نے مارچ میں ایک حملے میں شہید کردیا تھا۔
عالمی میڈیا کے مطابق زندہ مدعا علیہان میں حماس کے نئے رہنما یحییٰ سنوار سر فہرست ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ غزہ میں ہی مقیم ہیں، ان کے علاوہ خالد مشعل، جو دوحہ میں مقیم ہیں اور گروپ کے ڈائسپورا آفس کے سربراہ ہیں اور لبنان میں مقیم حماس کے ایک سینئر عہدیدار علی برکہ شامل ہیں۔
امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ کے مطابق نامزد کردہ تمام ملزموں نے، ہتھیاروں، سیاسی حمایت، اور حکومت ایران کی مالی امداد، اور حزب اللہ کی حمایت سے لیس ہوکر، حماس کی جانب سے اسرائیل کی ریاست کو تباہ کرنے اور اس مقصد کی حمایت میں شہریوں کو قتل کرنے کی کوششوں کی قیادت کی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی محکمہ انصاف کے ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ امریکی استغاثہ نے فروری میں ان 6 افراد کے خلاف الزامات عائد کیے تھے، لیکن اسماعیل ہنیہ کو پکڑنے کی امید میں مذکورہ شکایت کو مہر بند رکھا گیا تھا، لیکن ایرانی دارالحکومت تہران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد، جس کا الزام اسرائیل پر لگایا گیا، محکمہ انصاف نے ان الزامات کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا۔
امریکی الزامات ایسے وقت میں منظر عام پر آئے ہیں جب وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مصری اور قطری ہم منصبوں کے ساتھ جنگ بندی اور قیدیوں کے معاہدے کی ایک نئی تجویز تیار کر رہا ہے تاکہ غزہ میں لڑائی کو ختم کرنے کی کوشش کی جا سکے۔
بیروت کی امریکن یونیورسٹی سے وابستہ رامی خوری کے مطابق، حماس کے سرکردہ رہنماؤں پر الزامات عائد کرنے کے امریکی فیصلے سے جاری جنگ بندی مذاکرات میں اس کے اپنے ثالث کے کردار کو دھچکا لگا ہے۔
’اسرائیل کی جانب سے غزہ میں اٹھائے گئے موجودہ اقدامات کی، جنہیں اقوام متحدہ نے ایک قابل تعزیر نسل کشی قرار دیا ہے، امریکا بھرپور، پرجوش اور بھرپور طریقے سے حمایت کر رہا ہے، اور اس نے طویل عرصے سے حماس اور حزب اللہ جیسے گروپوں کی مخالفت کرتے ہوئے انہیں دہشت گرد گروپوں کا درجہ دیا ہواہے۔‘
رامی خوری نے کہا کہ فلسطینی گروپ پر الزام عائد کرنے کے اقدام سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا حماس کو اپنے اعمال کا ذمہ دار ٹھہرانے کا بہت خواہش مند ہے لیکن اسرائیل کو اس کے اعمال کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا ہے۔
’۔۔۔اور اسی لیے، دنیا کے بیشتر ممالک کی نظر میں امریکا ایک ایماندار ثالث نہیں بلکہ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے جاری نسل کشی میں شریک ہے۔‘