وقت کھبی معاف نہیں کرتا
تحریر آفتاب ظہور بھٹی
لگتا ہے کہ پاکستان بدل رہا ہے روز ایک نئی بات سامنے آرہی ہے تلخ حقیقتیں کھل کر سامنے آرہی ہیں اطلاعات کا فشار اپنے جوبن پر ہے جو عوام کل سوچ بھی نہیں سکتے تھے وہ انہونیاں آج ہو رہی ہیں اور وہ حقائق سامنے آرہے ہیں جن پر سوچنا بھی جرم تھا۔
تاریخ کے انداز نرالے ہیں عسکری طاقت کے ذریعے عظیم تہذیبوں کی اقوام پر غلبہ تو حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن فتح عارضی ہوتی ہے بہت جلد تہذیبیں ان حملہ اور طاقتور اقوام کو نگل جاتی ہیں جو فوجی طور پر برتر لیکن تہذیبی لحاظ سے کہیں کم تر ہوتی ہیں۔
آج دنیا کے زیادہ تر ملک جمہوری نظام کے تجربے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں بہت کم ملک ہیں جہاں پر فوجی آمریت یا بادشاہت قائم ہے۔ عرب ملکوں سے بھی یہ خبریں آرہی ہیں کہ آمرانہ حکومتوں کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔
جمہوریت جتنی بھی لنگڑی لولی کیوں نہ ہو اس میں ہزار خامیاں ہوں لیکن اس میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ کسی بھی ملک میں آباد تمام شہریوں کو ‘قوم’ نسل’ رنگ ‘مذہب’ یا مسلک کی تفریق سے بالاتر ہوکر مساوی حقوق دیتی ہے۔
1958کا مارشل لا طاقت کے ذریعے کثرت کو وحدت میں بدلنے کی ناکام کوشش تھی جنرل ایوب اور جنرل یحیی خان 12 سال تک ملک پر حکمران رہے اور ملک کو دولخت کر کے دنیا سے رخصت ہوئے۔
جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے آمرانہ نظام نے وفاقی اکائیوں کو دوبارہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا شدت پسند خیالات کو فروغ ملا مرکز مضبوط اور وفاق کمزور ہونے لگا جب حالات سنگین رخ اختیار کرنے لگے تو 2008 میں مجبور ہو کر انتخابات کروائے گئے ۔ مشرف کے جانے کے بعد ملک میں آئین معطل تھا الیکشن ہوئے تو پیپلز پارٹی جیت گئی جس کے نتیجہ میں ان کی حکومت وجود میں آئی جب پیپلز پارٹی نے حکومت سنبھالی تو اس وقت ملک عزیز میں 73 کا آئین معطل تھا آصف علی زرداری کی کوششوں سے 73 کے آئین کو اصل شکل میں بحال کیا گیا اور این ایف سی ایوارڈ منظور کروایا گیا اور صوبوں کے حقوق صوبوں کو اور وفاق کے حقوق وفاق کو دیے گئے اور ملک آہستہ آہستہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔
مرد حر کے اس عمل سے نہ صرف ملک سیدھی راہ پر چلا آمریت کا راستہ بھی رک گیا جمہوری حکومتوں کے دس سالہ دور کا سب سے بڑا کارنامہ اٹھارویں ترمیم تھی جس سے صوبائی خودمختاری اور وفاق مضبوط ہوا۔
آج دنیا میں جمہوری نظام اختیارات کے زیادہ سے زیادہ عدم ارتکاز کی جانب بڑھ رہا ہے طاقت اور اختیارات کو ایک جگہ مرتکز کرنے کے ہولناک نتائج ہمارے سامنے ہیں اس غلط تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسی کوئی تباہ کن تجویز کسی کے خیال میں بھی نہیں۔
صحافیوں کو ریاستی جبر اور سنسر شپ کے خلاف حق اور سچ کی آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ عوام تک اصل حقائق پہنچ سکیں پنجابی کی ایک نظم یاد آگئی
ٹھردا جائے عشق دا پنڈا
گیت دا جھگا کیکن سیواں
ادھڑ گیا خیال تروپا
قلم سوئی دا نکا ٹوٹا
ساری گل گواچ گئی اے
مہنگائی سے خوف زدہ عوام کے ذہن سے اٹھا سوال’ سرد چہرے’ اور سرد لاشیں’ گھائل امیدیں’ زخمی آوازیں’ خونی سویرے ‘اور کالی دوپہریں’ چیخ چیخ کر دوہاء بھی دے رہی ہیں اور گواہی دے رہی ہیں کہ حکمرانوں اپنی جھوٹی انا اور ہٹ دھرمی کو چھوڑو اور ہوش کے ناخن لو
نیازی صاحب آپ حاکم وقت ہیں آپ کو چاہیے کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں صرف اپوزیشن کو نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام کے بھی ہیرو بنیں اب آپ کے پاس وقت بھی ہے اور طاقت بھی ہے اگر آپ صدارتی آرڈیننس سے حکومت چلاتے رہے تو وقت جمہور اورتاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
جون ایلیا کے شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
تھڑا سیاست
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔