Wednesday, June 25, 2025
spot_img
ہومکالم وبلاگزایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد… دنیا کے امتحان کا نیا دور

ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد… دنیا کے امتحان کا نیا دور

تحریر: عاصم قدیر رانا

دنیا نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ ہفتوں کی شدید بمباری، میزائل حملے، اور خدشہ کہ شاید تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے — بالآخر ختم ہوا۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔ یہ خبر بظاہر مختصر لگتی ہے، لیکن اس کے پیچھے خون، آگ، سیاست اور عالمی طاقتوں کی تدبیریں چھپی ہوئی ہیں۔
اب جب جنگ کے شعلے سرد ہو چکے ہیں، اصل سوال یہ ہے:
“کیا دنیا واقعی امن کی طرف بڑھے گی یا یہ صرف ایک وقفہ ہے؟”
جنگ بندی کے عوامل: ایک پس منظر
یہ جنگ اچانک نہیں ہوئی۔ پچھلے کئی مہینوں سے ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی۔ ایران کے جوہری پروگرام، شام اور لبنان میں ایرانی اثر و رسوخ، اور اسرائیل کی جارحیت — سب مل کر ایک بڑے تصادم کا پیش خیمہ بنے۔
جب امریکی اسٹیلتھ بمبارز نے ایرانی نیوکلیئر تنصیبات پر حملے کیے، اور ایران نے اس کے جواب میں اسرائیل کے حیفا، دیمونا اور تل ابیب پر میزائل داغے، تو پوری دنیا لرز گئی۔ مگر جیسے ہی امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا: “امن ہی طاقت ہے، تیل بہنے دو، دنیا کو سانس لینے دو اسرائیل اور ایران دونوں نے دباؤ میں آ کر جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کر دی۔
اب کیا کرنا ہے؟ ایک حکمتِ عملی درکار ہے
اعلاقائی سلامتی کا نیا خاکہ
مشرقِ وسطیٰ کو ایک نیا علاقائی سیکیورٹی فریم ورک درکار ہے۔ ایران، سعودی عرب، ترکی، مصر اور متحدہ عرب امارات کو مل کر ایک “مشرقِ وسطیٰ امن معاہدہ” تشکیل دینا ہو گا، جس میں اسرائیل کی شمولیت بھی غیر مشروط ہو۔ اس معاہدے کے تین اہم ستون ہونے چاہئیں:
• ریاستی خودمختاری کا احترام
• غیر ریاستی گروہوں کی عسکری معاونت کا خاتمہ
• فلسطین و اسرائیل تنازع کا پرامن حل
اقتصادی بحالی اور عالمی مارکیٹ
جنگ نے عالمی معیشت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ تیل 130 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچا، شپنگ لائنیں متاثر ہوئیں، اور یورپی یونین کے کئی ممالک ریسیشن کے دہانے پر ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور G20 کو فوری طور پر ایک “مشرق وسطیٰ اکنامک اسٹیبلائزیشن فنڈ” بنانا چاہیے، جس سے ایران، لبنان، اور شام جیسے ممالک کی معیشت سنبھالی جا سکے۔
پاکستان کا کردار: خاموشی کا وقت ختم
پاکستان ایک ایٹمی قوت، مسلمان دنیا کا نمایندہ اور ایک ذمہ دار ریاست ہے۔ اب محض بیانات کافی نہیں۔ ہمیں اقوامِ متحدہ میں ایک “مسلم امن قرارداد” پیش کرنی چاہیے، جو تمام اسلامی ممالک کو اسرائیل و ایران دونوں کے ساتھ ایک متوازن مکالمہ کے لیے متحرک کرے۔
آئندہ خطرات — اگر کچھ نہ کیا گیا
اگر عالمی برادری، خاص طور پر امریکہ، روس اور چین، نے اس جنگ بندی کو صرف وقتی سکون سمجھا، اور فلسطین، غزہ، شام اور یمن جیسے مسائل کو جوں کا توں چھوڑ دیا، تو اگلی جنگ مزید خطرناک ہوگی۔ اسرائیل کے اندر سیاسی عدم استحکام، ایران میں داخلی مظاہرے، اور خطے میں طاقت کے خلا — سب مل کر ایک نئی تباہی کو جنم دے سکتے ہیں۔
اصلاحِ احوال: جنگ ذہنوں میں ختم کرنی ہے
اصل جنگ بموں اور بندوقوں کی نہیں، بلکہ بیانیے کی ہے۔ جب تک اسرائیل فلسطینیوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھے گا، اور جب تک ایران مغرب سے مکمل کٹاؤ کی پالیسی پر کاربند رہے گا، امن محض ایک فریب ہو گا۔
مسلمان دنیا کو بھی سوچنا ہو گا:
• ہم سائنس و ٹیکنالوجی میں پیچھے کیوں ہیں؟
• ہم داخلی جمہوریت، آزادیِ اظہار، اور تعلیم کو ترجیح کیوں نہیں دیتے؟
• ہمارا نوجوان صرف انتقام اور مظلومیت کے بیانیے میں کیوں الجھا ہوا ہے؟
امن کا دروازہ کھلا ہے، آگے بڑھنا ہم پر ہے
یہ جنگ بندی صرف ایک آغاز ہے۔ یہ ایک موقع ہے کہ دنیا خصوصاً مشرقِ وسطیٰ اپنی تاریخ کا دھارا بدل دے۔ اگر ہم نے دانشمندی نہ دکھائی، تو یہ خاموشی طوفان سے پہلے کی ہو سکتی ہے۔
امن صرف معاہدے سے نہیں آتا، نیت سے آتا ہے۔ اگر دلوں میں نفرت باقی رہی، تو معاہدے کاغذ بن کر رہ جائیں گے۔ لیکن اگر نیت صاف ہو، تو دشمنی دوستی میں بدل سکتی ہے جیسا کہ فرانس اور جرمنی میں ہوا، جاپان اور امریکہ میں ہوا۔
تو آیئے، اس موقع کو ضائع نہ ہونے دیں۔ ایران و اسرائیل کے درمیان آگ بجھی ہے، اب دلوں میں چراغ جلانے کا وقت ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔