پارا چنار: امن معاہدے کے پانچ روز گزرنے کے باوجود پارا چنار کے لیے سامان کے قافلے تاحال روانہ نہیں ہوسکے ہیں، ٹل کینٹ کمپاؤنڈ میں 29 سامان سے لدے ٹرک تاحال موجود ہیں، جبکہ 51 ٹرک واپس پشاور جا چکے ہیں۔ رات گئے ایک گاؤں پر راکٹ بھی داغا گیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کرم شاہراہ کو محفوظ بنانے کے اقدامات جاری کئے گئے ہیں، انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مندروی مشران کے ساتھ ٹل میں مذاکرات جاری ہیں، پارا چنار شاہراہ پر سیکیورٹی انتظامات مکمل ہوتے ہی امدادی سامان روانہ کر دیا جائے گا۔
دوسری جانب ضلع کرم کو دیگر اضلاع سے لنک کرنے والی واحد مین سڑک آج 94 ویں روز بھی ہر قسم آمد و رفت کیلئے بند ہے۔
راستوں کی بندش کے باعث پاراچنار شہر سمیت اپر کرم کے سو سے زائد دیہات علاقے میں مخصور ہوکر رہ گئے ہیں۔
طویل راستوں کی بندش کی وجہ سے انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، اشیائے خوردونوش نہ ملنے کی صورت میں شہری فاقوں پر مجبور ہیں۔
صدر سبزی منڈی کے مطابق شہر میں مقامی سبزیاں پیاز اور ٹماٹر ختم ہوچکے ہیں، جبکہ آلو 550 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہو رہے ہیں۔
صدر ٹریڈ یونین کا کہنا ہے کہ گودام ، دکانیں اور کاروباری مراکز میں ہر چیز ختم ہوچکی ہے اور زیادہ تر مراکز بند ہیں۔
سول سوسائٹی پاراچنار کا کہنا ہے کہ ادویات اور معیاری علاج نہ ملنے کی وجہ سے اب تک 147 بچے جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک پیناڈول گولی اور بروفین شربت کیلئے اسپتالوں میں لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہے۔
صدر میڈیکل یونین کا کہنا ہے کہ آؤٹ ڈور میڈیکیشن میسر نہیں ہے، میڈیکل سٹور خالی ہوچکے ہیں۔
اس کے علاوہ پیٹرول اور ڈیزل نہ ہونے کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ، اے ٹی ایمز مشینز اور موبائل نیٹ ورک بند ہیں، مواصلاتی نظام درہم برہم ہوچکا ہے اور لوگوں کو روابط میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ضلع کرم میں دفعہ 144 کے کھلے عام خلاف ورزی جاری ہے۔ دفعہ 144 کے باوجود جلسے جلوس جاری ہیں۔
ذرائع کے مطابق کل رات گاؤں بغدی پر ایک راکٹ داغا گیا ہے، راکٹ کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
طوری بنگش قبائل کے عمائدین کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کے باوجود روڈ تاحال نہیں کھولا گیا، یہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور حکومت کو کوئی پرواہ ہی نہیں۔
عمائدین نے مطالبہ کیا کہ روڈ کو ہر قسم آمد و رفت و ٹریفک کیلئے محفوظ بنایا جائے۔