نیویارک:وائٹ ہاؤس نے لبنان میں ہونے والے دھماکہ خیز حملوں میں کسی بھی کردار کی تردید کی ہے، جس میں مسلسل 2 دن تک ہزاروں مواصلاتی آلات کو نشانہ بنایا گیا، جس میں کم از کم 26 افراد جاں بحق اور 3,250 زخمی ہوئے ہیں۔
صحافیوں نے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان کربی سے دریافت کیا کہ آیا امریکا حزب اللہ کے ارکان کو نشانہ بنانے والے یکے بعد دیگرے حملوں میں ملوث تھا یا اسے پہلے سے مطلع کیا گیا تھا، جس پر جان کربی نے اعادہ کیا کہ ہم کسی بھی طرح سے ان واقعات میں ملوث نہیں تھے۔
’میرے پاس آج شیئر کرنے کے لیے مزید کچھ نہیں ہے۔۔۔ ہم جنگ کا خاتمہ دیکھنا چاہتے ہیں اور جو کچھ ہم شروع سے کر رہے ہیں وہ تنازعہ کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، خاص طور پر لبنان کے حوالے سے ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ آگے بڑھنے کا ایک سفارتی راستہ ہے۔‘
لبنان میں منفرد نوعیت کے ان دھماکوں کی ذمہ داری کسی بھی فریق نے قبول نہیں کی ہے، لیکن ان حملوں نے ایک بار پھر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان مکمل جنگ کا خدشہ پیدا کر دیا ہے، بہت سے آلات، جن میں پیجرز اور واکی ٹاکی شامل ہیں، حزب اللہ کے اراکین استعمال کرتے تھے، جو لبنان میں وسیع سماجی خدمات کے ساتھ نیم فوجی اور سیاسی دونوں گروپ کے طور پر کام کرتے ہیں۔
جان کربی کے مطابق یہ جاننا قبل از وقت ہوگا کہ ان واقعات کا اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین اس سرحد پر پہلے سے ہی پائی جانیوالی شدید کشیدگی کے پس منظر میں کیا مطلب ہو گا۔
’میں آپ کو صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ حال ہی میں کچھ روز قبل ہمارے ایلچی ایموس ہوکسٹائین خطے میں موجود تھے، ہم سفارتی نقطہ نظر سے بات چیت کے ذریعہ ہر ممکن کوشش کررہے ہیں کہ ان تناؤ کو ہر طرح کے تنازعات میں ڈھلنے سے روکا جا سکے۔‘
یہ دھماکے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے کے پس منظر میں، جس میں تقریباً 41,300 افراد شہید ہوچکے ہیں، مہینوں سے جاری حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان سرحد پار حملوں کے دوران ہوئے ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی جارحیت 7 اکتوبر کو حماس کی قیادت میں اسرائیل پر سرحد پار حملے سے شروع ہوئی تھی جس میں 1,189 اسرائیلی شہری مارے گئے تھے اور تقریباً 250 دیگر کو یرغمال بنا کر غزہ لے جایا گیا تھا۔
لبنان کے دھماکوں میں امریکا ملوث نہیں، ترجمان وائٹ ہاؤس
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔