اسلام آباد: سپریم کورٹ کا 7 رکنی لارجر بینچ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے معاملے پر دائر نظرثانی درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس شاہد بلال بینچ میں شامل ہیں۔
عدالت نے جواد ایس خواجہ کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو بینچ پر اب اعتراض تو نہیں؟ وکیل نے جوان دیا کہ ہم اس بینچ سے خوش ہیں، استدعا ہے کہ کیس چلا کر فیصلہ کیا جائے۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ دیکھیں، اس فیصلے کی روشنی میں بتائیں اس اپیل کا اسکوپ کیا ہے؟ کیا ایسی اپیل میں ہم صوبوں کو سن سکتے ہیں؟ حامد خان نے کہا کہ میں نے لاہور ہائیکورٹ بار کی جانب سے فریق بننے کی درخواست دی ہے۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ کی فریق بنے کی درخواست کیسے سنی جا سکتی ہے؟ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ کو ہم ویسے معاون کے طور پر سن لیں گے، آپ بار کی جانب سے کیوں فریق بننا چاہتے ہیں؟
حامد خان نے جواب دیا کہ اس معاملے پر بار کی ایک اپنی پوزیشن ہے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ ایسا ہے تو آپ کو پہلے اصل کیس میں سامنا آنا چاہیے تھا۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ انٹرا کورٹ اپیلوں میں تو صوبوں کو بھی نہیں سنا جانا چاہیے تھا۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ ہمارا وقت ضائع نہ کریں اصل کیس چلنے دیں، آپ نے بات کرنی ہے تو دیگر وکلا کی معاونت کر دیجیے گا۔
’حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی‘
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 5 ہفتوں سے فیملی کو ملزمان سے ملنے نہیں دیا جا رہا، لطیف کھوسہ نے گرہ لگائی کہ ملزمان کو برے حالات میں رکھا گیا ہے۔ اس پر جسٹس جمال خان مندو خیل نے استفسار کیا کہ ملاقات نہیں ہوئی تو کیسے پتا برے حالات میں رکھا گیا ہے؟ جواب ملا کہ جو لوگ پہلے ملے انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، جن ملزمان کی ملاقاتیں کرائی گئی وہ بیڑیوں میں تھے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ اگر ملزمان کو ایسے رکھا گیا ہے تو وہ غلط ہے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ جالب نے جیل میں ایسی ہی ملاقات پر کہا تھا ’حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی‘۔ اس پر جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ ہمیں شعر و شاعری نہیں آتی اصل کیس چلنے دیں۔
حفیظ اللہ نیازی نے عدالت کو بتایا کہ میرے بیٹے سے جو آخری ملاقات ہوئی اس عدالت کی مہربانی سے ہوئی۔ میری متفرق درخواست ہے کہ بیٹے سے متعلق اسی کو نمبر لگوا دیجیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم اس وقت اپیل سن رہے ہیں۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ کی درخواست لی تو نہ جانے اور کتنی درخواستیں آجائیں گی اور اصل کیس رہ ہی جائے گا۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ بہتر ہوگا اس کیس کو ہی چلا کر فیصلہ کریں۔
حفیظ اللہ نیازی نے آئین پاکستان ہاتھ میں اٹھا کر کہا کہ میرا بیٹا 11 ماہ سے جسمانی ریمانڈ پر ہے، بتائیں آئین میں یہ کہاں لکھا ہے؟ مولانا ابو الکلام نے کہا تھا کہ سب سے بڑی نا انصافی جنگ کے میدانوں میں یا انصاف کے ایوانوں میں ہوتی ہے
