Sunday, December 22, 2024
ہومکالم وبلاگزامن ، رواداری ، درویشی اور عیاری

امن ، رواداری ، درویشی اور عیاری

کسی غیرسرکاری تنظیم نے دو برس قبل امن اور رواداری کی باتیں کرکے ڈونرز سے فنڈز حاصل کرنے کے لئے مختلف یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور دانشوروں کے لیکچرز کا اہتمام کیا۔یہ لیکچرمختلف دینی مدارس کے طلباکے لیے تھے۔پراجیکٹ یہ تھا کہ یونیورسٹیوں اوردینی مدارس کے طلباکو مل بیٹھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ ایک دوسرے کے مسائل کوسمجھ سکیں اور اس کے نتیجے میں دینی مدارس کے طلباکے رویوں میں اعتدال پیدا کیا جاسکے۔لیکچر دینے والوں کے پینل میں میرے ساتھ پروفیسر خالد سعید بھی شامل تھے۔
ہمیں طلباسے امن ،رواداری اوربھائی چارے کے موضوع پر بات کرناتھی ۔ لیکچر کا بنیادی موضوع ملتان کی تاریخ ،ثقافت اور روایات کے حوالے سے تھا اورمنتظمین کا کہناتھا کہ ملتان کی تاریخ پر بات کرتے ہوئے آپ اصل موضوع بھی زیربحث لے آئیں۔اصل موضوع کو ملفوف اسی لیے رکھاگیا کہ مذہب کا نام سنتے ہی بہت سے لوگ اور ادارے شکوک وشبہات کا شکارہوجاتے ہیں۔ہمیں طلباکو یہ بتانا تھا کہ سماج میں کفر کے فتوے بلاوجہ عائد نہ کیے جائیں اوراگر کوئی اقلیت میں ہے یا اس کا کسی اور مذہب سے تعلق ہے تو اس کا بھی احترام کرنا ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس کادرس ہمیں اسلام نے بھی دیا اور بزرگان دین نے بھی اسی پیغام کو عام کیاجن میں ملتان کے صوفیابھی شامل ہیں۔
اس موضوع پر اس سے پہلے ایک لیکچر ملتان ٹی ہاس میں دیاگیاتھا جہاں میں نے منتظمین سے کہا تھاکہ آپ نے مدرسے اور یونیورسٹی کے طلباکو ایک ہی ورکشاپ میں اکٹھا تو کرلیا لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ورکشاپ میں آپ مدرسے والوں کی ذہن سازی کرلیں گے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے ۔اس ورکشاپ کے بعد یہ بھی امکان ہے کہ یونیورسٹیوں کے کچھ طلبامستقل طورپر مدرسوں میں ہی چلے جائیں۔آپ جتنا بھی ضرور لگالیں مدرسے کے طلباکو وہ سب نہیں سکھا سکیں گے جو آپ یا آپ کے ڈونرز چاہتے ہیں اور ممکن ہے اس ورکشاپ میں کہیں کوئی بدمزگی بھی ہوجائے۔ اس وقت تو یہ بات میں نے ہلکے پھلکے انداز میں کہی اور برسبیل تذکرہ ہی کہی لیکن میرے لاشعور میں جوکچھ تھا وہ کچھ عرصہ بعدایک اور غیرسرکاری تنظیم کی ورکشاپ کے دوران زرعی یونیورسٹی کے ایک لیکچر میں عملی صورت اختیار کرگیا۔ اس لیکچر میں میرے ساتھ پروفیسر خالد سعیدپینل میں شامل تھے۔ہم نے بین المذاہب ہم آہنگی اور امن ،محبت،بھائی چارے کے فارمولا موضوع پر لیکچردیئے ۔ملتان کی تاریخ پر بات کی اور صوفیاکی تعلیمات کا مرکزی حوالہ پرہلاد کے مندر کوبناتے ہوئے بات آگے بڑھادی۔پہلے میں نے گفتگو کی ۔خالد سعید صاحب سٹیج پر موجودتھے ۔وہ ہمیشہ کی طرح غیرمعمولی انداز میں میری حوصلہ افزائی کرتے رہے، مجھے شاباش دیتے رہے اورگفتگوکے دوران اگرمیں کچھ غلط بول جاتا تو وہ اس کی تصحیح بھی کردیتے تھے۔ اور پھرمیرے بعد وہ خود لیکچر کے لیے تشریف لے آئے۔ خالد صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں ملتان کی تاریخ بیان کی۔ملتان پر حملہ آورہونے والوں کا ذکر کیااور مسلسل حملوں اور غلامی کے نتیجے میں اس شہر کی جومجموعی نفسیات تشکیل پائی اس کا بھی انہوں نے تفصیل سے ذکرکیا۔خالد صاحب نے ملتان کی روایات پربات کی اور صوفیاکی تعلیمات کا حوالہ دیا۔ان کا لیکچر بہت خوبصورت انداز میں اختتام پذیر ہوگیا۔لیکچر کے دوران خالد سعیدصاحب نے اشارتاجودو چارحساس باتیں کی تھیں کچھ طلبانے ان کے حوالے سے سوالات کردیئے۔ خالد صاحب ان ناسمجھ لڑکوں کو بہت محبت کے ساتھ سمجھانے کے لیے سٹیج پرچلے گئے۔ ان کی گفتگو بحث کی صورت اختیار کرتی جارہی تھی۔ وہ ہرسوال کے بعد جذباتی انداز میں نوجوانوں کو اپنا نقطہ نظر یہ سوچ کر سمجھار ہے تھے کہ شاید وہ بات سمجھ جائیں گے ۔ ایک کے بعد ایک باریش نوجوان ان سے سوال کرتا اور کچھ ایسے نوجوان بھی تھے جن کے پیٹ میں داڑھی تھی وہ خالد صاحب سے بحث و تکرارکرنے لگے۔یہ وہ لمحہ تھا کہ جب مجھے محسوس ہوا کہ اگر خالد صاحب اسی محبت اور درویشانہ انداز میں ان بچوں کو سمجھاتے رہیں گے تو شاید معاملات مزیدخراب ہوجائیں۔اب مجھے سرمحفل گستاخی کرناتھی اور خالد صاحب کی گفتگو میں میری مداخلت ضرور ی ہوگئی تھی۔میں نے چند لمحوں کے لیے سوچا اور پھرخود سٹیج پر آگیا۔خالد صاحب آپ تشریف رکھیں میں ان سے خود بات کرتا ہوں۔ مجھے معلوم تھا کہ خالد صاحب کبھی منافقانہ رویہ نہیں اپناسکیں گے۔وہ درویش اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔ انہیں عیاری نہیں آتی۔ایسی عیاری کے لیے ہم جیسے درویش جو اس دنیا میں آ ئے ہیں۔میں نے اپنی عیاری سے صورت حال سنبھال لی اور پروگرام ہنسی خوشی اختتام پذیر ہوگیا۔
خالد سعید کے ساتھ پہلی ملاقات کب ہوئی یہ تو مجھے یاد نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ میں اس زمانے میں پرنسٹن سگریٹ پیتاتھا۔پرنسٹن دی بگ ون کے اشتہارات ان دنوں بہت مقبول تھے اور یہ سگریٹ بھی اس زمانے میں چند لوگ ہی پیتے تھے جن میں ایک نام منو بھائی کابھی تھا۔مجھے یقین ہے کہ 80کے عشرے میں ہماری پہلی گفتگو کسی تقریب میں سگریٹ کے لین دین کے حوالے سے ہی ہوئی ہوگی۔یاتو میں نے ان سے سگریٹ مانگا ہوگا یا پھرخالد سعید کے سگریٹ ختم ہوگئے ہوں گے ۔خالد صاحب کے ساتھ محبت کاایک حوالہ ڈاکٹر صلاح الدین حیدربھی ہیں۔ڈاکٹر صاحب کو میں ہمیشہ سے اپناآئیڈیل سمجھتا ہوں۔ ایک ایسی ہستی جس نے نظریات اوراصولوں کی خاطر بہت سی قربانیاں دیں۔کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن بات کرنے سے باز نہ آئے۔ڈاکٹر صلاح الدین حیدر کے ساتھ ہمارا بے تکلفی والا تعلق نہیں ہے۔ عمروں کی تفاوت کے باوجود بے تکلفی کا یہ رشتہ پروفیسر خالد سعید کے ساتھ استوار ہوا۔ تنقید ،تراجم ،شاعری اور ملتان آرٹس فورم سمیت ان کے فن اور شخصیت کی کئی جہتیں ہیں اور ان سے محبت کرنے والوں کا بھی ایک بڑا حلقہ ہے جوخالد سعید کو اپنا مرشد مانتے ہیں۔ خالد سعید کی نظمیں سننا،ان کے ساتھ گفتگو کرنا ،ان کی محفل میں بیٹھنا مجھے ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ خالد صاحب کے ساتھ گفتگو کی کوئی سبیل نکلتی رہے ،کوئی محفل جس میں وہ اپنے مخصوص انداز میں سٹیج پرآئیں اور لہراتی ہوئی گفتگو کریں۔ کہیں سنجیدہ ہوجائیں ،کہیں قہقہہ لگائیں اور جب ان کی گفتگو ختم ہوجائے تو لوگ حیرت سے کہیں کہ یارو،خالد سعید کی گفتگو کے دوران توایک گھنٹہ دومنٹ میں ہی بیت گیا ۔مجھے اعتراف ہے کہ میں خالد صاحب کو اس طرح نہیں جانتا جیسے انہیں ڈاکٹرعامرسہیل جانتے ہیں یا جیسے ان کے ساتھ ملتان آرٹس فورم والوں کی بیٹھک ہوتی ہے ۔لیکن مجھے یہ اعتراف ہے کہ میں نے خالد صاحب سے بہت کچھ سیکھا ۔میں شکرگزار ہوں قاضی علی ابوالحسن کا کہ انہوں نے اصرار کے ساتھ مجھ سے خالد صاحب کے لیے یہ چند سطریں لکھوا لیں ۔ان پر تفصیلی مضمون مجھ پرقرض ہے اوریہ قرض میں بہت جلد چکاں گا کہ اس شہر میں چند ہی تو لوگ ہیں جنہوں نے ترقی پسندی کو کاروبار نہیں بنایا اوران میں ڈاکٹر صلاح الدین حیدر کے بعد دوسرا یقینا پروفیسر خالد سعید کا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔