Monday, June 23, 2025
spot_img
ہومکالم وبلاگزمصنف فرمان علی چوہدری عجمی

مصنف فرمان علی چوہدری عجمی

تحریر ۔۔۔شہزاد علی اکبر
کہتے ہیں کہ کسی بھی مصنف کا لکھنے کا انداز یہ بتا دیتا ہے کہ اس کے الفاظ اس کی دل کی آواز ہیں کہ نہیں فرمان علی چوہدری عجمی کی کتاب نظریہ پاکستان اور جہاد پڑھ کر یہ محسوس ہوا کہ جو ان کے احساسات ہیں ان کو انہوں نے انتہائی عمدہ انداز میں تحریر کیا۔نظریہ پاکستان کی بات اگر کسی نے کی ہے تو فرمان علی چوہدری نے کی ہے۔ ان کی کتاب کا مطالعہ کیا تو میں دنگ رھ گیا۔اس کتاب میں تصوف سے لے کر جہاد تک اور دین کی محبت سے پاکستان کی محبت تک سب موضوعات پہ انتہائی عمدہ انداز میں بات کی گئی ہے۔لیکن جو مصنف کے تجربات ، مشاہدات اور معلومات ہیں وہ کسی بھی طالب علم کی علمی پیاس بھجانے کے لئے کافی ہیں۔فرمان علی چوہدری نے زبان عام فہم رکھی تاکہ ان مشکل باتوں کو بھی ہر شخص سمجھ سکے۔وہ کیا کہنا چاھتے ہیں ان کی کتاب کا ایک باب پڑھ کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ان کی تحریر اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ نہ صرف ایک اچھے مسلمان ہیں بلکہ سچے عاشق رسول ہیں اور ان کے اندر قومیت بھی کوٹ کوٹ کے بھری یوئی ہے۔وہ ایک محب وطن پاکستانی اور امن کے داعی ہیں لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق جہاں جہاد کی بات ہو اس کو بھی ضروری سمجھتے ہیں لیکن وہ یہ بات برملا کرتے ہیں کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔وہ ریاست اور خاص طور پر افواج پاکستان کے کردار سے نہ صرف مطمئن نظر آتے ہیں بلکہ وہ افواج پاکستان کو پاکستان کی بقا کی ضامن سمجھتے ہیں۔تصوف ان کے اندر رچا بسا ہے۔لیکن وہ دنیا داری کے پیمانوں کو بھی خوب سمجھتے ہیں ۔جو شخص ان سے مل چکا ہے وہ جان سکتا ہے کہ وہ اس طرح کی کئی کتابیں مزید لکھ سکتے ہیں اور ان کو لکھنا بھی چاھیے۔بھلا آج کے دور میں ان انتہائی اہم موضوعات پہ لکھ ہی کتنے لوگ رھے ہیں۔یقین جانیں کتاب کھولی تو اس کو بند نہ کرسکا جب تک ختم نہ ہوگئی۔ابھی بھی جب دل چاھتا ہے کسی ایک موضوع کو دوبارہ پڑھ کے جو دل کو تسلی اور سکون ملتا ہے وہ کمال کا ہے۔۔باتوں میں اثر کسی صاحب کردار کی تحریر کا ہی ہوسکتا ہے۔اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ آپ کو ان کی اس کتاب میں کیا اچھا لگا تو میں کہوں گا کہ مجھے مصنف کا سوچنے اور پھر اس سوچ کو الفاظ کی شکل میں محفوظ بنانے کا عمل اچھا لگا۔مجھے ان کی تحقیق کا عمل اچھا لگا انہوں نے جو بات کی وہ دلیل کے ساتھ کی۔اور پھر اس بات کو اس موضوع کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا۔اس کتاب پہ گھنٹوں بولا اور لکھا جاسکتا ہے کہ ہر مو ضوع ہی اپنے اندر ایک وسعت لئے ہوئے ہے ۔انشااللہ اس کتاب کی باضابطہ تقریب رونمائی کرکے مصنف کو خود بھی سنیں گے کہ انہوں نے ان موضوعات پہ لکھنا کیوں ضروری سمجھا اور وہ کیا بات ہے جس نے انھیں مجبور کیا کہ اس موضوع پہ ایک جامع کتاب تحریر کریں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔