گرین لینڈ (سب نیوز )سنہ 1962 کا زمانہ تھا۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کی کشیدگی اپنے عروج پر تھی۔ ایسے میں ایک نوجوان ڈاکٹر، جسے امریکہ کی فوجی خدمات میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا تھا، اپنی نیویارک کے بیلیوو اسپتال میں جاری میڈیکل ٹریننگ کو ادھورا چھوڑ کر گرین لینڈ کے ایک دور دراز علاقے میں تعینات ہونے پر مجبور ہوگیا۔اس ڈاکٹر کو یہ بتایا گیا تھا کہ اسے قطب شمالی کی برف کے نیچے تقریبا 8 میٹر گہرائی میں موجود ایک تحقیقی مرکز میں خدمات انجام دینی ہیں۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہی تھی۔
ڈاکٹر رابرٹ وائس، جو اس وقت 26 سال کے تھے اور آج ییل یونیورسٹی میں یورولوجی کے پروفیسر ہیں، کو کیمپ سنچری نامی ایک خفیہ امریکی فوجی منصوبے کا حصہ بنایا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت برف کے نیچے میزائل لانچنگ سائٹس تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی تاکہ سوویت یونین پر اچانک حملہ ممکن بنایا جا سکے۔
ڈاکٹر وائس کو اس خفیہ منصوبے کی حقیقت کا علم کئی دہائیوں بعد 1990 کی دہائی میں اس وقت ہوا جب اس معلومات کو عوام کے لیے افشا کیا گیا۔ انہوں نے وہاں تقریبا ایک سال گزارا اور ایک ایسی زیرِ زمین برفیلی دنیا میں قیام کیا جو نہ صرف جدید سائنسی تجربات بلکہ فوجی منصوبہ بندی کے لیے بھی استعمال ہو رہی تھی۔
کیمپ سنچری ایک غیر معمولی منصوبہ تھا، جہاں امریکی فوج نے جدید ترین انجینئرنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے برف کے اندر ایک پورا شہر بسایا تھا۔ اس شہر میں رہائشی بیرکیں، لیبارٹریاں، باورچی خانے، غسل خانے، ورزش کے مقامات اور یہاں تک کہ ایک جوہری ری ایکٹر بھی شامل تھا جو اس پورے مرکز کو توانائی فراہم کرتا تھا۔
ابتدائی طور پر جوہری ری ایکٹر کی کارکردگی میں کچھ مسائل پیدا ہوئے اور کیمپ میں تابکاری کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے لیڈ کی تہیں لگائی گئیں، جس کے بعد حالات معمول پر آئے۔ ڈاکٹر وائس کے مطابق، وہاں زندگی اتنی دشوار نہیں تھی جتنی کہ وہ تصور کر رہے تھے۔ وہ اپنے فارغ وقت میں طبی کتب کا مطالعہ کرتے، شطرنج اور برج کھیلتے اور 10 سینٹ میں مارٹینی سے لطف اندوز ہوتے۔
کیمپ سنچری کا اصل مقصد سائنسی تحقیق بتائی جاتی تھی، لیکن حقیقت میں یہ پروجیکٹ آئس ورم نامی ایک خفیہ فوجی منصوبے کا حصہ تھا۔ اس منصوبے کے تحت امریکی فوج برف کے نیچے میزائل لانچنگ سائٹس بنانے کا ارادہ رکھتی تھی تاکہ سوویت یونین کو حیران کن حملے کا نشانہ بنایا جا سکے۔
یہ منصوبہ اس قدر خفیہ تھا کہ اس کے بارے میں معلومات 1997 میں منظرِ عام پر آئیں، جب ڈنمارک کے ایک تحقیقی ادارے نے اسے ایک امریکی خفیہ دستاویز سے دریافت کیا۔ منصوبے کے تحت تقریبا 135,000 مربع کلومیٹر کے علاقے میں 600 کے قریب میزائل تعینات کیے جانے تھے۔ تاہم، اس منصوبے پر کبھی مکمل عمل درآمد نہ ہو سکا اور 1967 میں کیمپ سنچری کو ترک کر دیا گیا۔
گرین لینڈ میں ماحولیاتی خطرہ
کیمپ سنچری آج بھی گرین لینڈ کی برف کے نیچے دفن ہے، لیکن سائنس دانوں کو اس کے حوالے سے ایک نئے خطرے کا سامنا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر گلوبل وارمنگ کے باعث برف پگھلتی ہے تو وہاں موجود جوہری اور کیمیائی فضلہ ماحول میں شامل ہو سکتا ہے، جو ایک بڑا ماحولیاتی بحران پیدا کر سکتا ہے۔
امریکی فوج نے 1967 میں کیمپ سنچری سے جوہری ری ایکٹر تو ہٹا لیا تھا، لیکن وہاں کا فضلہ، بشمول تابکاری سے آلودہ پانی، اب بھی برف کے نیچے دفن ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق، اگر عالمی درجہ حرارت اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو 2100 کے بعد اس فضلے کے برف سے باہر آنے کا امکان موجود ہے۔
کیمپ سنچری نہ صرف ایک فوجی منصوبہ تھا بلکہ اس نے سائنسی تحقیق میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ یہاں کیے جانے والے مطالعات نے زمین کے ماضی کے ماحولیاتی حالات کو سمجھنے میں مدد فراہم کی۔
1966 میں یہاں سے حاصل کیا گیا برف کا کور (Ice Core) تقریبا 100,000 سال پرانے موسمی حالات کا ایک محفوظ ریکارڈ تھا۔ اسی کور نے سائنس دانوں کو یہ انکشاف کرنے میں مدد دی کہ گرین لینڈ ماضی میں برف سے پاک تھا، جو اس بات کی علامت ہے کہ اگر موجودہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ جاری رہا تو سمندروں کی سطح میں زبردست اضافہ ہو سکتا ہے۔ اب جب کہ عالمی حدت میں اضافہ ہو رہا ہے، کیمپ سنچری ایک نئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے، جس سے نہ صرف گرین لینڈ بلکہ پوری دنیا متاثر ہو سکتی ہے۔