اسلام آباد (آئی پی ایس )سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے استعفے سے متعلق افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھاگ کر نہیں جائیں گے، نظام کو بہتر کرنے کا جتنا اختیار ہاتھ میں ہے وہ استعمال کریں گے۔
ہفتہ کو اسلام آباد میں بچوں سے انصاف کے موضوع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ مفاد عامہ کے مقدمات سے کافی بہتری آتی ہے اور میں ہمیشہ کہتا ہوں عدالت آئیں، میں اگرچہ آئینی بینچ میں نہیں مگر میرے ساتھی آپ کو سنیں گے۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ بچے ہمارا مستقبل ہی نہیں ہمارا آج بھی ہیں، ہماری عدالتوں میں بچہ پیش ہوتا ہے لیکن اس کو سنتے ہی نہیں، ہم ماں باپ کو سن کر بچے کا فیصلہ کر دیں گے، بچہ جب بھی عدالت پیش ہو برائے مہربانی اس کو لازمی سنیں، بطور جج آج کے بعد ہمارے لیے یہ سبق ہونا چاہئے، فیصلہ سازی کے عمل میں بچے کو بھی لازمی سنا جائے، بدقسمتی سے ہم بچے کو یوں سمجھ لیتے ہیں جیسے ویسے ہی کوئی چیز سائیڈ پر رکھی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، بچہ عدالت آکر سارا دن بیٹھا رہے، بچے سے متعلق کیس کو فوری سنا جانا چاہیے، بچوں کو آج سائبر بلنگ جیسے خطرات کا سامنا ہے، ملک میں پچیس ملین سے زیادہ بچے اسکول نہیں جا رہے، اسپیشل چائلڈ سے متعلق ہمارے پاس سہولیات موجود نہیں، بچیوں کو ونی کرنے جیسی رسومات آج تک موجود ہیں، جبری مذہب کی تبدیلی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، اسکول میں بچوں کو مارنے پیٹنے کا رجحان آج بھی موجود ہے۔
اپنے خطاب کے دوران جسٹس منصور نے ہال میں موجود جسٹس جمال مندوخیل کو بھی مخاطب کیا اور کہا کہ بچوں سے متعلق آئین کے آرٹیکل 11تین کی تشریح کی ضرورت ہے، میں اب یہ تشریح کر نہیں سکتا آپ کر سکتے ہیں، آئی ایم سوری، مجھے یہ بار بار کہنا پڑ رہا ہے، میں مگر اب کیا کروں میں یہ تشریح کر نہیں سکتا۔تقریب کے بعد جسٹس منصور علی شاہ سے صحافیوں نے سوالات کیے اور ایک صحافی نے پوچھا کہ کیا آپ کے مستعفی ہونے سے متعلق افواہیں درست ہیں؟ جس پر سنیئر جسٹس نے جواب دیا کہ پتہ نہیں آپ کو یہ فکر کہاں سے لاحق ہوئی، یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ بھاگ کر نہیں جائیں گے، جو کام کر سکتا ہوں وہ جاری رکھوں گا۔ان کا کہنا تھا کہ ابھی ایک کانفرنس پر آیا ہوں، اس کے بعد دوسری پر جا رہا ہوں، نظام کو بہتر کرنے کا جتنا اختیار ہاتھ میں ہے وہ استعمال کریں گے۔