ڈھاکہ (سب نیوز )بنگلہ دیش کی اہم سیاسی جماعتوں نے ہندو مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے دوران وکیل کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں وسیع پیمانے پر پر تشدد واقعات کے بعد عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پبلک پراسیکیوٹر سیف الاسلام الف منگل کے روز اس وقت انتقال کر گئے جب ہندو پنڈت چنموئے کرشنا داس برہمچاری کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد ان کے مشتعل حامیوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی تھی، ہندو پنڈت کو ایک ریلی کے دوران بنگلہ دیشی پرچم کی بے حرمتی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
مسلم اکثریتی ملک میں اگست میں طلبہ کی زیرقیادت احتجاج کے نتیجے میں مطلق العنان سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کا تختہ الٹنے کے بعد سے بین المذاہب تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں جب کہ وہ اپنی حکومت جانے کے بعد بھارت فرار ہو گئی تھیں۔حسینہ واجد کے 15 سالہ دور اقتدار میں ان کے دو اہم مخالف جماعتوں بنگلہ دیشی نیشنل پارٹی (بی این پی) اور جماعت اسلامی نے عوام پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔
آج روزنامہ پرتھم الو نے بی این پی کے سیکریٹری جنرل مرزا فخر الاسلام عالمگیر کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ تازہ ترین اشتعال کے پیچھے شکست زدہ فاشسٹ گروپ کا ہاتھ ہے، ان کا اشارہ حسینہ واجد کی عوامی لیگ کی طرف تھا۔انہوں نے اخبار کو بتایا کہ یہ واقعہ مکمل طور پر نا قابل قبول ہے، ہم اس کی سختی سے مذمت کرتے ہیں اور سب پر زور دیتے ہیں کہ وہ پرامن طریقے سے صورتحال سے نمٹیں۔
جماعت اسلامی کے شفیق الرحمن نے جاری بے امنی کا الزام ایک ملک کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کرنے والے مفاد پرست گروپ پر لگایا۔سڑکوں پر مظاہروں کے دوران عالمی ہندو مذہبی گروپ انٹرنیشنل سوسائٹی فار کرشنا کانسیئسنس ( آئی ایس کے سی او این )جسے ہرے کرشنا تحریک بھی کہا جاتا ہے، پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا، ہندو پنڈت چنموئے کرشنا داس برہمچاری کا تعلق مبینہ طور پر اس گروپ ہے۔
اسلامی مدارس کی ایک تنظیم حزبِ اسلام کے رہنما مامون الحق نے گروپ پر پابندی کا مطالبہ کرنے کے لیے ریلی نکالی جس میں الزام لگایا گیا کہ یہ بھارت کی جانب سے حسینہ واجد کو اقتدار میں واپس لانے کا ایک محاذ ہے، جو ان کی معزول کردہ حکومت سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک ہے۔