سیدہ زینب
@zaynistic_13
“انسان” خدا کی ایسی مخلوق جسے جتنی بھی نعمتیں دی گئی ہوں اس کے لیے کم ہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انسان بڑا ناشکراہے، اگر ہماری کوئی دس خواہشیں پوری ہو جائیں تو مزید بیس خواہشات جنم لے لیتی ہیں۔ بظاہر انسان کہہ دے کہ جتنا مجھے رب نے دیا ہے میں اس میں راضی ہوں اگلے ہی دن پھر کسی نہ کسی کو دیکھ کہ دل کہ کسی کونے میں مزید خواہشیں ضرور جنم لے لیتی ہیں۔ مگر یہ معاملہ صرف ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو صحیح معنی میں خدا پر بھروسہ نہ کرتے ہوں۔ جن میں یہ کامل یقین ہو کہ میری اتنی محنت کے بعد بھی مجھے جو مل رہا ہے ، جتنا مل رہا ہے یہی خدا کی رضا ہے۔ میرا وہ مالک چاہتا ہے کہ اسکی کائنات کی تمام نعمتوں اور رحمتوں میں میرا حصہ اتنا ہی ہے جتنا مجھے دیا جا رہا ہے۔ اور اسی میں خدا کی بہتری ہے کیونکہ اگر پانی سر سے اوپر چلا جائے تو وبالِ جان بن جاتا ہے۔ یہی ایمان یہی بھروسہ انسان کے اندر سکون و اطمینان کے سمندر پیدا کر دیتا ہے۔اس کے بر عکس اگر انسان کا دل اس ایمان سے خالی ہو تو اسے جتنا بھی مل جائے اس کے لیے کم ہوتا ہے، ایسے لوگوں کی روح بے چینی و بے قراری کی دلدل میں ڈوبتی چلی جاتی ہے اور انہیں کہیں بھی کسی صورت سکون نہیں ملتا۔ نا شکری اور بے صبری سے ایسے لوگوں کی گہری اور طویل دوستی رہتی ہے، جو انہیں کسی پل سکون نہیں کرنے دیتی۔جو انسان دل میں کامل ایمان رکھتا ہے کہ ہمارے پاس جو بھی ہے، چاہے کوئی رشتہ، چیز یا علم سب خدا کی امانت ہے جو اسی کے پاس لوٹ کہ جانی ہے۔ کیونکہ ہمارے مالک نے تو قرآن میں بھی فرما دیا ہے کہ انسان تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کا بھی مالک نہیں ہے۔ تو سوچیں یہ غرور کس بات کا ہے ہم میں؟جب سب کچھ اللہ کا ہے اسی کے پاس ہمیشہ رہنا ہے تو ہم کیوں وقتی مالک بن بیٹھے ہیں۔ اگر انسان یہ عقیدہ مضبوط کر لے کہ سب کچھ ہمارے رب کی امانت ہے تو ہماری زندگی میں مایوسی کی کوئی جگہ باقی نہ رے۔میں نے دیکھا ہے ایسے لوگوں کو جن سے خدا جب چاہے جو بھی لے وہ ا±ف نہیں کرتے۔ کوئی قریبی رشتہ خدا واپس لے لے تو اس پر صبر کرتے ہیں۔ہاں میں نے دیکھا ہے کسی کے گھر سے 20 سال کا جوان اگر خدا واپس لے تو اس کی ماں خدا پہ کامل ایمان کی بدولت دل میں کسی بے چینی کے بغیر زندہ رہتی ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ خدا کی امانت تھی اس نے واپس لے لی اور خدا بھی ایسے لوگوں کو صبر دیتا ہے ان کی روح ایسی راحت کی وادی میں چہل رہی ہوتی ہے جہاں بے چینی کی ذرہ برابر بھی ہوا نہیں ہوتی۔اس کے برعکس میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو سب کچھ ہونے کہ باوجود کہیں قرار نہیں پاتے۔ جن سے خدا کوئی رشتہ واپس لے لے وہ اس پہ صبر نہیں کرتے۔ جیسے وہ یہ گمان کر بیٹھے ہوں کہ جو خدا نے ہم سے لیا ہے وہ ہمیشہ ہمارا ہی رہنا تھا۔ ایسے ایمان کے کمزور لوگ جیسا بھی سہارا ڈھونڈ لیں ان کی روح اضطراب کی آگ میں ہی رہتی ہے ہمیشہ۔
انسان
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔