تحریر: آصف خورشید
تحریک انصاف کی حکومت سے عوام نے بہت ساری امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور اس کی بڑی خود وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کی جانب سے عوام کے ساتھ کیے گیے بلندوبانگ دعوے تھے۔دوسری جماعتوں کی کرپشن سے تنگ عوام کو وزیراعظم عمران خان نے یہ احساس دلایا تھا کہ اگر قیادت یماندار ہو تو مہنگائی اور دیگر مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔تاہم یہ دعوے اب آہستہ آہستہ زمین بوس ہو رہے ہیں۔مہنگائی کا جن اب قابو سے باہر ہونے کے بعد غریب لوگوں کی جانیں لے رہا ہے۔عوام کی قوت خرید میں مسلسل کمی آتی جارہی ہے اور حکومت کے ذمہ داران کی تمام تر توجہ اپوزیشن کے خلاف بیانات پر مرکوز ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن ہمیشہ عوام کی ترجمانی کرتی ہے تاہم اپوزیشن جماعتوں کو بھی لگتا ہے عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور ان کی تمام توجہ اقتدار میں شرکت یا اپنے قائدین کے خلاف مقدمات کی واپسی پر مرکوز ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بیشتر ایسے مقدمات ہیں جوخود اپوزیشن جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف اپنے اپنے دور حکومت میں قائم کر رکھے تھے۔ موجودہ حکومت کا دعوٰی نظام بدلنے کا تھا اور لوگوں کی اکثریت بھی محض اس لیے ساتھ تھی کہ شاید پرانے فرسودہ نظام سے ان کی خلاصی ہو جائے گی اور ایک ایسا نظام لاگو ہو گا جس میں عوامی مسائل کو ترجیح دی جائے گی لیکن جوں جوں وقت گزررہا ہے یہ سراب ثابت ہو رہا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں سٹریٹ جرائم کا گراف بڑھتا جا رہا ہے، ترقیاتی کاموں کی طرف توجہ نہیں دی جارہی۔ابھی رات ہی کی بات ہے کہ پولیس چوکی سے دومنٹ کے فاصلہ پر آئی نائن میں ڈکیتی کی واردات ہوئی جس میں فائرنگ بھی ہوئی تاہم اردگرد کے مکین تو اکٹھے ہوگئے لیکن پولیس آدھے گھنٹے بعد پہنچی۔جن علاقوں میں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں وہ ویسے ہی ہیں۔ضلعی انتظامیہ مختلف جگہوں پر چھاپے مار کر مہنگائی کرنے والوں کے خلاف کارروائی تو کرتی ہے لیکن اس کا دکھاو ا شاید سوشل میڈیا پر زیادہ ہے لیکن عملی طور پر اس کا اثر وفاقی دارالحکومت کے کسی علاقے میں نظر نہیں آرہا۔کاشتکار اور مزدور طبقہ اس وقت سب سے زیادہ بدحالی زندگی بسر کر رہا ہے۔حکومت کی جانب سے اسٹیٹ کے کاروبار میں کئی قسم کی رعاتیں دینے کے باوجود کاروبار میں کوئی تیزی دیکھنے میں نہیں آرہی جس کی بڑی وجہ موجودہ حکومت پر کاروباری طبقے کے اعتماد میں کمی کا پتا چلتا ہے۔ایسے میں وزراءاور ترجمانوں کی فوج محض اپوزیشن کے خلاف بیانات دے کر مہنگائی میں پسی عوام کے زخموں پر مرحم نہیں رکھ سکتے۔
تحریک انصاف حکومت کی مختلف سیکٹرز میں ناکامی کے باوجود اس کے کچھ ایسے اقدامات تھے جن سے عوام کو کچھ مسائل میں فوری ریلیف ملنے کی توقع تھی۔ان میں سرفہرست وزیراعظم کی جانب سے سٹیزن پورٹل کا قیام تھا۔ابتدائی دنوں میں اس پورٹل کے کافی مثبت نتائج دیکھنے میں ملے لیکن جس طرح دوسرے معاملات میں بد انتظامی اور نااہلی نے قوم کے مسائل میں اضافہ کر رکھا ہے اس معاملہ میں بھی آہستہ آہستہ وہی بگاڑ نظر آنے لگا ہے۔ ایسے کئی کیسز سامنے آنے لگے ہے کہ جس میں سائلین کو یا تو ٹرخا دیا جاتا ہے یا پھر ہمیشہ کی طرح کسی نہ کسی سرخ بتی کے پیچھے لگادیا جاتا ہے۔ جبکہ اس کے فوائد کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے غلط استعمال پر بھی کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔جہاں اوپر سے نیچے تک معاشرے میں کرپشن، سفارش اور سرکاری قوانین کا غلط استعمال موجود ہو وہاں پر ایسے مثبت اقدام کے غلط استعمال پر کیوں توجہ نہیں دی گئی۔ یہ کیوں نہیں سوچا گیا کہ اس پورٹل کے غلط استعمال کرنے پر کئی لوگوں کی زندگی میں مزید مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے جس نے بھی یہ منصوبہ بنایا اور وزیراعظم کو پیش کیا اس نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اول تو سیٹیزن پر ہونے والی شکایات حل ہونے میں اب مسلسل کمی آرہی ہے۔افسران اپنی طرف سے مسئلہ حل کرکے آگے رپورٹ پیش کر دیتے ہیں جبکہ سائل بیچارہ مزید پریشان ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف اس کے ذریعے غلط شکایات نے بھی کئی لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور افسران بھی بغیر کسی تحقیق کے اوپر اوکے کی رپورٹ دینے کے لیے زیادتی کر جاتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ ماہ پہلے ایک کیس سامنے آیا جس میں دو طالبات نے بدنیتی پر ایک ادارے کے خلاف شکایت درج کی۔مہان بیوروکریسی نے اس ادارے کے سربراہ کو بلا کر کہا کہ جیسے بھی ہو آپ اس مسئلے کو حل کریں اور ابھی حل کریں۔ادارے کے سربراہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ انہیں مسئلہ کی حقیقت بتائی جائے لیکن چونکہ دوسری طرف ایک تو خواتین تھیں اور دوسرا انہیں اوپر رپورٹ دینی تھی کہ مسئلہ حل کر دیا گیا ہے انہوں نے دھونس اور دھمکیوں کے ساتھ ادارے کے سربراہ پر دباو¿ ڈال کر خواتین کے حق میں فیصلہ کر دیا حالانکہ ان کے پاس کوئی ایک بھی ڈاکومنٹ موجود نہ تھا۔تاہم ادارے کے سربراہ نے اپنی ساکھ بچانے اور کسی بھی قسم کی محاذ آرائی سے بچنے کے لیے جو سرکار کے دل میں آئی اس پر من و عن عمل کردیا۔
اب اسی طرح کا ایک اور کیس سامنے آیا ہے جس کا تعلق بھی تعلیمی ادارے سے ہے۔ ایک معروف یونیورسٹی میں پڑھانے والے ایک استاد کے خلاف کسی نامعلوم بندے کی جانب سے درخواست دی گئی کہ انہوں نے دھوکہ کے ساتھ اپنی شاگرد کا تھیسس اپنے نام سے کسی کانفرنس میں پیش کیا ہے اور الزامات لگائے کہ یہ استاد اکثر ایسی واردات میں ملوث ہے لہذا اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اگر کوئی طالبعلم اپنے استاد کے خلاف ایسی شکایت لگاتا ہے تو یقینا بات سمجھ میں آتی تھی تاہم اس کے باوجود یہ ضروری تھا کہ پہلے اس معاملہ کی چھان بین کی جاتی پھر اس پر کوئی فیصلہ کیا جاتا۔سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ جس واقعہ کو بنیاد بنا کر یہ لگائی گئی تھی وہ 2017میں پیش آیا اور جس طالبہ کے بارے میں کہا گیا اس کی جانب سے بھی کوئی ایسی شکایت نہیں لگائی گئی تھی۔ اب افسرشاہی نے اس معاملہ کی تحقیق کرنے کی بجائے 2017میں جس یونیورسٹی میں وہ استاد معلم تھے اور جس میں وہ اب معلم تھے دونوں اداروں کی انتظامیہ کو نوٹس جاری کر دیا کہ آپ کا یہ استاد اس اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث ہے لہذا آپ ان سے پوچھ گچھ کر کے فارغ کر دیں تاکہ آپ کے ادارے پرکوئی حرف نہ آئے۔ اب جب یونیورسٹی انتظامیہ کے پاس یہ نوٹس آیا تو انہوں نے اس پر ایک انکوائری کمیٹی بنا دی جو تاحال کام کررہی ہے تاہم جب تک اس کیس کا فیصلہ ہو گا اس وقت تک جس استاد پر الزام لگایا گیا ہے اس کی ساکھ بری طرح تباہ ہو چکی ہو گی۔ جس یونیورسٹی میں انکوائری کمیٹی بن گئی وہ وہاں پر ملزم کی حیثیت سے پیش ہو کر اپنی صفائی دے رہا ہوگا جبکہ دوسری یونیورسٹی میں اس نے جتنا عرصہ پڑھایا وہ سب داو¿ پر لگ گیا کیونکہ وہ تو اب یہ بھی زحمت نہیں کریں گے کہ اس واقعہ کی تحقیق کی جائے۔سوال یہ ہے کہ کیا شکایت لگانے والے اور جس کے خلاف شکایت لگائی گئی کسی ایسے فورم پر بلا کر تحقیق کی گئی جہاں پر بے گناہ ہونے کی صورت میں معلم کی عزت و ناموس پر حرف نہ آئے اور بے بنیاد الزام لگانے والے کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ ابھی تک تو ایسا نظر نہیں آیا۔ اب یہ بھی ممکن نہیں کہ جن ذمہ داران نے یونیورسٹی انتظامیہ کو معلم کے خلاف نوٹس بھیجا ان کے خلاف کارروائی کی جائے کیونکہ معلم کے پاس اتنا وقت کہاں ہوتا ہے کہ وہ کیس کرتا پھرے اور پھر اس پر پیسے لگا کر خوامخواہ کسی افسر کی دشمنی مول لے۔ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک یونیورسٹی میں اپنی خدمات دینے والے معلم کیسے اس کے لیے وقت اور پیسہ نکال سکتا ہے۔
حکومت کے ذمہ داران اور بالخصوص وزیر اعظم کو چاہیے کہ اس طرح کے واقعات پر فوری طور پر نوٹس لیں اور ایک ایسا کام جو شاید ان کی حکومت کا ایک بہت بڑا اور مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے اس کے غلط استعمال پر بھی فوری طور پر اقدامات کیے جائیں تاکہ کسی بھی شخص کی عزت و ناموس پر بلاوجہ حرف نہ آئے۔ نظام کی تبدیلی کے دعوے کرنے والی حکومت کو چاہیے کہ شکایات کا ایسا نظام بنائے جہاں نہ صرف جرم کی تشخیص ہو سکے بلکہ اگر کوئی غلط الزام لگتا ہے تو ایسے شخص کے خلاف بھی اقدامات کیے جائیں۔ دوسری طرف افسر شاہی کو بھی اس بات کا پابند بنائے جانے کے لیے اقدامات کیے جائیں کہ وہ محض مسئلہ کے حل کی رپورٹ جمع کروانے کے لیے مخالفین پر بلا وجہ زور نہ ڈالیں وزیر اعظم اس کو وبال جان بننے سے روکنے کے لیے فوری طور پر نوٹس لیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ مثبت اقدام بھی موجودہ حکومت کے گناہوں میں شمار ہو جائے گا۔