Thursday, March 28, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگزشادی نہ ہونا ایک بڑا المیہ!

شادی نہ ہونا ایک بڑا المیہ!

ازقلم : ثنا سجاد اسلام آباد
ہم اُس دنیا میں جِی رہے ہیں جہاں ہمیں اچھی طرح سے یہ معلوم ہے کہ دوسروں کی زندگی کیا؟ کیوں؟ اور کیسے ہونا چاہیئے خواہ ہمیں اپنے آپ کا پتہ ہو یا نہ ہو اور سب سے تلخ بات یہ ہے کہ کیسے ہم بِن مانگے ہی اپنے نظریات کسی دوسرے انسان کی زندگی کے اُن ذاتی پہلوؤں پر تھوپنے کی تَگ و دو میں لگے رہتے ہیں جن سے دور دور تک ہمارا کوئی تعلق نہیں ہوتا کئی باتوں میں یہ چند سوالات شاید آپ نے سنے ہی ہوں۔
“رشتہ نہیں آیا کوئی؟”
“شادی کب کررہی ہو؟”
عمر نکلتی جا رہی ہے، کون شادی کرے گا تم سے؟
اور ایسے ہی کئی سوالات ”جو کسی بھی لڑکی کے ذاتی معاملات ہیں“ ہم کرتے ہوئے ہرگز نہیں سوچتے کہ لڑکی اور اُس کے والدین کے ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ شادی کے مسائل ہر کسی کو پیش آتے ہوں گے خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی پر ابھی میں اُسی پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گی جو بحثیتِ لڑکی میں اپنے گِرد و نواح میں دیکھ یا محسوس کرچکی ہوں رشتے کی خاطر کسی چوہے جیسی دوڑ نے کیسے ایک لڑکی کو اپنی قیمتی جان لینے پر مجبور کردیا۔ اس حقیقت پر مبنی کہانی کو پڑھنے کے بعد میرا اس کو بیان کرنے اور اس پرروشنی ڈالنے کا مقصد صرف معاشرے کے ان تلخ اور بے رحم حقائق کو سامنے لانا ہے جنہیں انسانی جان پر زیادہ ترجیح دی جاتی ہے کہ زندگی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔
ملٹن برلی سے اقتباس ہے کہ
اگر مواقع آپ کے درپردستک نہ دیں تو اپنے لیے خود دروازہ بنالیں
لیکن جہاں لڑکی کی شادی کی بات آتی ہے وہاں ہمارے معاشرے نے اِس فلسفے کو شاید ایک قدم آگے لیا ہے۔ اگر پیار آپ کے درپر دستک نہ دے، تو فوری طورپرایک ایسا کامل اہتمام شدہ رشتہ ڈھونڈھ کرپیار کُن کُنبے کو تعمیرکرلیں جس کے دونوں فریقوں کی طرف سے رضا مندی ممکن ہوسکتی ہے۔ دَراصل، اکثر یہ نُقطہ نظر کام کر بھی جاتا ہے۔ ماہرین کا یہ دعویٰ ہے کہ متعدد معاملات میں، اَرینج شادی میں پسند کی شادی سے کئی زیادہ دیرپا محبت قائم رہتی ہے۔ لیکن پاکستان میں اَرینج شادیوں کے اس موجودہ دور وہ دن جب رشتے دار ”رشتے کی تلاش میں گھومتے ہیں“ – حیرت انگیزی سے کم نہیں ہے۔
اس لڑکی کی کہانی بیان کرنا چاہوں گی جو نہایت دلکش شخصیت کی مالک تھی۔ جہاں بھی جاتی وہاں ہنسی اور مسکراہٹ بِکھیر دینے والی، جیسے وہ ایک لاپرواہ زندگی کے لیے ہی بنائی گئی ہو۔ جس کی چاہ صرف خوشی اور ذاتی اطمینان تک محدود تھی- تعلیم اوراچھی ملازمت کے باوجود اس بات کا اِنکشاف ہوا کہ ایک مستحکم ملازمت اور تعلیم یافتہ پروفائل اس معاشرے کی نظر میں کافی نہیں جس میں وہ رہ رہی تھی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ کتنا اچھا کام کررہی تھی، اِس کے دوست اور خاندان آئے دن ایک ہی سوال اٹھاتے رہے شادی کا اردہ کب کا ہے؟
شادی اُس کے لیے جیسے ایک بڑا سوالیہ نشان بن چکا تھا، ایک ایسا سوال جس نے اس کی مکمل زندگی کو اپنی قید میں لے لیا تھا۔ زندگی کو رنگین قوسِ قزح سے تشبیہ دینے والی کی اپنی زندگی اچانک ایسے سیاہ رنگوں سے بھرگئی جس کا اُس نے کبھی تصور ہی نہیں کیا تھا آئے روز اس کے والدین نے سفید کالر ملازمت، بڑے خاندانوں اور یہاں تک کے کئی عمر رسیدہ رشتوں کی فہرست دکھانے کو ہی جیسے اپنا مشغلہ بنا لیا تھا۔ شکل وصورت کی بات کی جائے تو اس معاملے میں بھی وہ نسبتاً بد قسمت تھی۔ اس کی رنگت اتنی گوری نہ تھی جتنی اس معاشرے میں پسند کی جاتی تھی اور نہ ہی وہ کسی اونچے عہدے پر فائز تھی جس بِناء پر مناسب رشتہ ملنے کی بنیاد رکھی جاسکے۔ اگرچہ وہ زندگی سے تو جیت گئی، مگر کامیاب شادی کے لیے دیئے گئے مکمل ہدایت نامہ سے وہ مطابقت نہیں رکھ پاٸی۔ اَن گِنت بار اس نے چمکدا رنگ کے لباس کو زیبِ تن کرکے، کئی کئی بار زلفیں سنوار کر، کامل مسکراہٹ چہرے پر سجائے مہمانوں کا استقبال کیا، جو وہاں یہ دیکھنے کے لیے موجود ہوتے تھے کہ وہ شادی کے لیے موزوں ہے یا نہیں۔ لیکن حتمی باتیں وہی رہتی تھیں۔
”وہ ڈاکٹر نہیں ہے”
”ہمارا بیٹا اس سے زیادہ بہتر ہے”
”میرے بیٹے سے زیادہ عمر کی لگ رہی ہے”
اور سب سے زیادہ پریشان کن بات ہم نے چار لڑکیاں دیکھی ہیں اور سب ہی ہمیں پسند ہیں، لہذا فیصلہ کرنے کے بعد آپ کو کال کریں گے۔
یہ کہنا شاید ضروری نہیں اُسے یا اُس کے والدین کو ان لوگوں کی طرف سے کبھی کوئی کال موصول نہیں ہوئی۔ حیرت زدہ اور افسردہ، اپنی خود اعتمادی کو مکمل طور پر کھو دینے کے بعد وہ ایسے مقام تک آ پہنچی تھی کہ اپنی ذات میں موجود قابلِ تعریف کسی بھی خوبی کی فہرست بنانے میں وہ بری طرح ناکام ہوچکی تھی۔ کبھی کسی شادی پر جانا ہوتا، حسرت بھری نگاہوں سے خوش قسمت جوڑے کو ہاتھ تھامے پھولوں سے ڈھکے راستے پر چلتے دیکھ اسے لگتا تھا کہ ان کی زندگی میں کوئی پریشانی، کوئی پیچیدہ خدشات نہیں ہیں۔ وہ تاہم مکمل طور پراس غم کا شکار ہو چکی تھی۔ اکثر ہی خود سے یہ سوال کرتی تھی: ”کیا میری آنکھیں کبھی اس خوشی کی چمک دیکھ پائیں گی؟”
ہر گزرتی رات وہ خود کے لیے روتی رہی۔ اس کی ایک دوست تھی جس سے اکثر وہ اپنے دل کے حالات بانٹ لیتی تھی۔ اس کی دوست لکھتی ہیں کہ وہ ہمیشہ ایک ہی نوعیت کی شکایات گنواتی تھی۔
”انہوں نے مجھے ٹھکرا دیا”
”مجھے پھرسے نیچا دکھایا گیا”
مجھے اپنی ذات چڑیا گھر میں موجود کسی جانور کی طرح محسوس ہوتی ہے، وہ میری رضا مندی جانے بنا ہی اپنے موبائل میں میری تصاویر کھینچ لیتے ہیں۔
اس سب پر اس کی دوست نے اسے مشورہ دیا کہ کسی ماہر نفسیات کو دکھائے مگر اس نے انکارکردیا۔ یہاں تک کے ذہنی دباؤ کے چنگل میں آکر اسے نیند کی گولیوں کی لت لگ گئی۔ گولیوں سے راحت حاصل کرنے کے چند ہی ماہ بعد ایک دن نشہ آور گولیوں کے زائد استعمال کی وجہ سے موت نے اسے گلے لگا لیا اور وہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔
اس کی دوست کہتی ہیں کہ وہ ہمیشہ ایک ڈائری میں اپنی مایوسیوں کو قلمبند کرتی تھی جس میں اس کے لکھے یہ آخری جملے ہمیشہ میرے ساتھ رہے۔
شیشے کو بِکھیر کردیکھیں کے یہ دنیا کیا ہے، جعلی ڈراؤنا خواب، مبہم خواب، پھر بھی جب میں خوبصورتی کو سچائی اور سچائی میں خوبصورتی دیکھوں تو مسکرا دیتی ہوں
میں کہنا یہ چاہتی ہوں کہ کیا ہم لوگوں کے ذاتی مسائل پر تنقیدی سوالات کرنا چھوڑ سکتے ہیں؟
کیونکہ آپ نہیں جانتے کے لوگ پہلے ہی بہت اذیت جھیل رہے ہوتے ہیں اورہم اس پر مزید سوالات کرکے صرف اس تکلیف کوبھاتے ہیں۔ معاشرے میں ایسے حادثات شاید اِسی احساس کمتری کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ اس لئے اِس چیز کو سمجھیں کہ شادی کے معاملے میں ہمارے ایسے سوالات کسی کو ذہنی دباؤ کا شکار بناسکتے ہیں۔ خود سے ایک عہد کر لیں کہ کسی کی زندگی پر کوئی سوال کوئی تنقید نہیں کریں گے۔
میں گزارش کرتی ہوں ہراس لڑکی سے جو کہیں بھی ایسے مرحلے سے گزر رہی ہے، خود پر ہ گز سختی نہ برتیں۔ آپ کی زندگی ہرچیز سے بڑھ کر ہے اور خود کی طرف آپکی بہت ذمہ داریاں ہیں۔ خود سے ہمدردی کا رویہ رکھیں، خود سے اور ان لوگوں سے محبت کریں جو آپ کی قدر کرتے ہیں۔ شادی جلد ازجلد ہوجا چاہیے، اس قانون کو اتنی اہمیت نہ دیں کہ اپنی ذات ہی بے معنی لگنے لگے۔ سب کو ہمیشہ ہرچیز اچھی نہیں ملتی لیکن ہر چیز کا صِلہ اللہ کے ہاں ضرور دیا جاتا ہے۔ لوگوں کی طرف سے ترس بھرے اذیت ناک الفاظوں کو اپنے دل میں جگہ ہرگز نہ دیں۔ آپ کے خیالات آپ خود ہیں تو خود کو اہمیت دیں اور زندگی کو مضبوط رہ کر گزاریں۔