اسلام آباد،وزیراعظم عمران خان نے فارن فنڈنگ کیس کو اوپن کرنے کے اپنے عوامی اعلان پر یوٹرن لیتے ہوئے تحریری طورپر موقف اختیار کیا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کی سماعت اور اس کی جانچ پڑتال (سکروٹنی)کو خفیہ رکھا جائے۔ یہ موقف انہوں نے منگل کو الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی سماعت کے موقع پر اپنے وکیل کے ذریعے دائر کئے جانے والے تحریری بیان میں اپنایا ہے۔
20 جنوری 2021 کو وانا کے دورے کے موقع پر وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ فارن فنڈنگ کیس کو اوپن کیاجائے۔ تحریک انصاف کے بانی رہنما اور فارن فنڈنگ کیس کے پٹیشنر اکبر ایس بابر نے 26 جنوری کو سکروٹنی کمیٹی کو درخواست دی تھی کہ پی ٹی آئی کے23 فارن فنڈنگ اکاونٹس کی تفصیلات اور دستاویزات انہیں فراہم کئے جائیں جن میں سے اکثریتی بنک اکاونٹس کو الیکشن کمشن سے چھپایا گیا تھا۔ درخواست گزار نے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر2002 کے آرٹیکل 5 (4) کے تحت قانونی شکایت کے حق، الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 203 (5)، الیکشن کمشن کے 30 مئی 2018 اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے 4دسمبر2019 کے حکم کے تحت استدعا کی تھی کہ انہیں یہ ریکارڈ فراہم کیاجائے۔ اپنے تحریری جواب میں پی ٹی آئی کے وکیل شاہ خاور نے پی ٹی آئی کے دستاویزات تک مقدمے کے مدعی کو رسائی دینے سے انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پارٹی(پی ٹی آئی)چئیرمین کے بیان کی غلط تاویل کی گئی ہے، اس سے یہ مراد نہیں کہ مدعا علیہان (پی ٹی آئی)کی طرف سے جمع کرائے گئے دستاویزات اور سکروٹنی کمیٹی کی جانب سے جمع کردہ مواد(پٹیشنرکو) فراہم کئے جائیں۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ پٹیشنر(مدعی مقدمہ) کی دستاویزات تک رسائی کی درخواست مسترد کی جائے۔ مدعی مقدمہ اکبر ایس بابر کے وکیل سید احمد حسن شاہ اور ان کے معاون وکیل بدراقبال چوہدری نے اصرار کیا کہ الیکشن کمشن کے اپنے تحریری احکامات اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکمنامے کے تحت دستاویزات تک رسائی مدعی مقدمہ کا قانونی حق ہے۔ پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کردہ درخواستوں اور رٹ پٹیشنز میں دستاویزات اور کارروائی خفیہ رکھنے کی استدعا کی تھی جو منظور نہیں ہوئی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب مقدمے میں اہم ترین شواہد اور دستاویزات ہی مدعی کو فراہم نہیں ہوں گے تو پٹیشنر سکروٹنی کمیٹی کی معاونت کیسے کرسکتا ہے؟ ان کا استدلال تھا کہ کمیٹی کی بنیادی ذمہ داری حقائق تلاش کرنا ہے۔ کمیٹی دستاویزات کی حقیقت کا پتہ کیسے لگاسکتی ہے جب تک کہ پٹیشنر کا دستاویزات تک رسائی کا حق ہی تسلیم نہ کیاجائے جو الیکشن کمشن کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہے جن میں خاص طورپر یہ بھی کہی گئی ہے کہ مقدمے کا تمام ریکارڈ پبلک ریکارڈ کا حصہ ہے۔ سید احمد حسن شاہ نے کمیٹی سے استدعا کی کہ دستاویزات اور شواہد کی پٹیشنر کو فراہمی سے متعلق تحریری حکم جاری کیاجائے۔ انہوں نے کہاکہ دستاویزات تک رسائی کے نکتے کو مزید زیرالتوانہیں رکھاجاسکتا۔ سکروٹنی کمیٹی کے اجلاس کے بعد الیکشن کمشن کے باہر میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے بانی رہنما اور پٹیشنر اکبر ایس بابر نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان نے فارن فنڈنگ کیس کی سماعت اوپن کرنے کا بیان دیا تھا لیکن آج ثابت ہوگیا کہ عمران خان کا یہ بیان محض دکھاوا اور عوام کو گمراہ کرنے کے لئے دیاگیا تھا۔ اس مقدمے میں شفافیت کے حوالے سے پی ٹی آئی کی کوئی ساکھ نہیں۔ انہوں نے سکروٹنی کمیٹی کے ٹی او آرز میں لکھا ہے کہ انکوائری دونوں فریقین کی موجودگی میں کی جائے گی جبکہ صورتحال اصل میں یہ ہے کہ پٹیشنر کو سکروٹنی کے عمل میں آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک ربڑسٹیمپ کے طورپر استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو میرے لئے ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہاکہ پٹیشنر اور پاکستان کے عوام کا یہ حق ہے کہ انہیں حقائق معلوم ہوں جنہیں غیرقانونی طورپر دستاویزات دینے سے انکار کرکے چھپایا جارہا ہے۔ یہ سب ایک ایسی جماعت کررہی ہے جو خود کو شفافیت اور احتساب کی چیمپئین قرار دیتی تھی۔ اکبر ایس بابر نے کہاکہ میڈیا میں اطلاعات گردش میں ہیں کہ ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی پی ٹی آئی اور عمران خان کے بڑے عطیات دینے والوں میں سرفہرست ہیں جس کی پی ٹی آئی نے اب تک تردید نہیں کی اور بار بار کے مطالبات کے باوجود اس معاملے میں کوئی تحقیقات نہیں کی جارہیں۔ اسی طرح مشرق وسطی، یورپ اور دیگر ممالک میں پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور نہ ہی پٹیشنر کی طرف سے اس ضمن میں پیش کردہ شواہد کو پرکھنے اور جانچنے کی کوئی کوشش ہورہی ہے۔ اکبر ایس بابر نے سکروٹنی کمیٹی کی کارروائی کی شفافیت پر اپنی تشویش دوہراتے ہوئے کہاکہ اس امر کی تصدیق خود الیکشن کمشن کے 27 اگست 2020 کے حکم سے بھی ہوجاتی ہے جس میں سکروٹنی کمیٹی کی 17 اگست 2020 کی رپورٹ کو مسترد کردیا گیا تھا۔الیکشن کمشن کے اس حکم میں کہاگیا تھا کہ سکروٹنی کمیٹی نے نہ توریکارڈ کی جانچ پڑتال کی ہے اور نہ ہی دستاویزات کے ثبوت کو ہی جانچا ہے۔انہوں نے کہاکہ دستاویزات اور ریکارڈ تک رسائی ان کا قانونی حق ہے جو شفافیت اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہاکہ وہ اور ان کے وکیل مستقبل کی حکمت عملی کا فیصلہ سکروٹنی کمیٹی کے 9 فروری کو آئندہ اجلاس کے بعد کریں گے۔