کسی کو خود پسندی کا نشہ ، کسی کو اپنی پارسائی کا ،کسی کو وردی کا نشہ تو کسی کو عزت،شہرت دولت،چینی،گندم کا! غرض ہر وہ شے جو آپ کو غافل کر دے کسی نشے سے کم نہیں اور اس افراتفری کے دور میں ہر شخص ہی اس بری لت میں مبتلا ملتا ہے!کہیں سنا تھا جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو سب سے پہلے اس میں سے بوجھ کو کم کیا جاتا ہے تاکہ کشتی کی سلامتی یقینی بنائی جائے جبکہ زندگی کے دام میں جب ہم آتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ زندگی کے سمندر میں ہر پل ایک نہی لہر جنم لیتی ہے جو ہمیں کبھی بھی بتا کر نہیں آتی اور ہمیں سنبھلنے کا موقع شازونادر ہی ملتا ہے اور ایسے میں ہم حادثوں سے بچنے کے بجائے ایسے راستے کا انتخاب کرتے ہیں جو ہمیں ایک حادثے سے نکال کر کسی بڑے سانحہ کی طرف دھکیل دیتا ہے کیونکہ ہم میں سے اکثریت اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتی ہے کہ جو ہمیں معلوم ہے وہ ہی صحیح ہے جبکہ ہمارا تجربہ تو درست ہو سکتا ہے پر جو حالات درپیش ہوں اس پر وہ ہی تجربہ کام آئے بلکل بھی ضروری نہیں اسی لیے زندگی کے ہر نئے مرحلے کو ہم سے ہماری الگ صلاحیت درکار ہوتی ہے !اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک ہم نشے کے خول سے باہر نا آ جائیں !