اسلام آباد (سب نیوز)
پامیر کے بلند پہاڑوں کے برفیلے علاقے میں، 4،733 میٹر کی بلندی پر واقع خنجراب ڈرائی پورٹ چین۔پاکستان سرحد پر ایک ’کلاؤڈ گیٹ وے‘ کی مانند کھڑا ہے۔ ماضی میں شدید سرد پہاڑی موسم سے متاثر یہ علاقہ ہر سال چار ماہ طویل “سردیوں کی نیند” کا شکار ہوتا تھا۔لیکن یکم دسمبر 2023 کو مستقل کھولے جانے کے بعد، یہ سرحدی راستہ موسمی کھلنے اور بند ہونے کے دور کو مکمل طور پر الوداع کہہ چکا ہے، اور اب ہمہ موسمی اپریشن کے ساتھ چین۔پاکستان اقتصادی راہداری کو اعلیٰ معیار کی ترقی کی جانب آگے بڑھانے کی ایک مضبوط شریان بن گیا ہے ۔یہ ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ انیشی ایٹو کے تحت چین اور پاکستان کے باہمی تعاون کی ایک نمایاں مثال ہے۔
ہارڈ ویئر کی بہتری تجارتی تبادلے کو تیز کرنے کا بنیادی سہارا رہی ہے۔اس سال، کاشغر کے علاقے نے 2.4 بلین یوآن مالیت کے حکومتی بانڈز کو درستگی سے بروئے کار لاتے ہوئے خنجراب ڈرائی پورٹ کے بنیادی ڈھانچے کی جدید کاری کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسمارٹ چیک پوائنٹس، H986 لارج کنٹینر انسپکشن سسٹم جیسے جدید آلات کی تنصیب اور فعالیت سے ’فوری آمد، فوری معائنہ، فوری ریلیز‘ کو حقیقت کا روپ دیا گیا ہے۔ انتہائی شدید سرد موسم کے پیشِ نظر، ملٹی فنکشنل برف ہٹانے والے آلات اور سڑکوں کی دیکھ بھال کے مراکز نے ایک جامع حفاظتی جال بچھا دیا ہے، جس سے موسم سرما میں نقل و حمل کے دوران صفر حادثات کا ہدف حاصل کیا گیا ہے۔
’ہائی وے پاس + براہ راست رسائی‘ کے ماڈل اور زرعی اور فارم ضمنی مصنوعات کے لیے گرین چینلز کے قیام سے کسٹم کلیئرنس کے عمل میں 30 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے، جس نے بلند سطح سمندر والے علاقے میں تجارتی نقل و حرکت کی تمام رکاوٹوں کو ختم کر دیا ہے۔ ایسی ٹھوس سرمایہ کاریوں نے نہ صرف پاس کے افعال کو بہتر بنایا ہے، بلکہ ’پاس + ہب + انڈسٹری‘ کی ترقیاتی ساخت بھی تشکیل دی ہے، جس سے زمینی نقل و حمل کی سمندری اور فضائی نقل و حمل کے مقابلے میں لاگت کی برتری کو مکمل طور پر اجاگر کیا گیا ہے اور یہ چین-پاکستان کارگو نقل و حمل کا ترجیحی انتخاب بن گیا ہے۔
سافٹ ویئر کی بہتری نے تعاون کی جاندار قوت کو مسلسل اجاگر کیا ہے۔ خنجراب ڈرائی پورٹ کے زیرِاہتمام جامع کسٹم خدمات تعاون نیٹ ورک نے چین-پاکستان تجارتی ڈھانچے کو مسلسل بہتر بنایا ہے: پاکستان کے لیے برآمدات میں عام مصنوعات، زرعی و پولٹری مصنوعات، اور مکینیکل آلات کا متنوع ڈھانچہ تشکیل پایا ہے، جس میں زرعی و پولٹری مصنوعات اور عام مصنوعات کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ ہے؛ پاکستان سے درآمدات روایتی معدنیات سے بڑھ کر گلابی نمک، چلغوزے جیسی خصوصی مصنوعات تک پھیل گئی ہیں، جبکہ چھلکے والے اخروٹ اور کپڑے تجارت کے نئے ترقیاتی پوائنٹس بن گئے ہیں۔
نتیجتاً اس سے 2024 میں باہمی تجارت کا حجم 2021 کے مقابلے میں 18 گنا بڑھ گیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ’انسان پر مرکوز‘ خدماتی سوچ عملی تعاون کے ٹھوس نتائج میں تبدیل ہو رہی ہے ۔ مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ سرحد پار سیاحت کی بحالی نے دوطرفہ ثقافتی تبادلہ کو مستحکم طور پر گرم رکھا ۔ 2024 میں آمد ورفت کا حجم ساٹھ ہزار سے تجاوز کر گیا، جو گذشتہ 43 سال کی بلند ترین سطح ہے۔ قراقرم ہائی وے کے ساتھ واقع ہوم اسٹیز اور ریستوران مقامی و غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، جہاں ’چائنیز ذائقہ‘ اور شاہراہ ریشم کی ثقافتیں آپس میں گھل مل رہی ہیں۔
خنجراب ڈرائی پورٹ کی اپ گریڈیشن کی گہری اہمیت نہ صرف اس کے جغرافیائی فوائد کو ترقیاتی فوائد میں بدلنے میں ہے، بلکہ یہ ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ کو ایک تصور سے ٹھوس عوامی بہبود میں ڈھال رہی ہے۔ تیسرے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ بین الاقوامی تعاون فورم کے ایک اہم ثمر کے طور پر، خنجراب پاس کا سال بھر کھلا رہنا نہ صرف چین-پاکستان اقتصادی راہداری کی ایک اہم کامیابی ہے، بلکہ یہ سنکیانگ کے اعلیٰ سطحی کھلے پن کی ایک واضح مثال بھی ہے۔ قلیل مدت میں، پاس کے بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری نے روزگار اور کھپت کو فروغ دیا ہے اور علاقائی معیشت کے دباؤ کو کم کیا ہے؛ طویل مدت میں، اسمارٹ پورٹس، کراس بارڈر کولڈ چین لاجسٹکس جیسی نئی صنعتوں کا فروغ، کاشغر کے بطور شاہراہ ریشم اکنامک بیلٹ کے مرکز کے اثرات کو مزید فعال کرے گی اور چین-پاکستان اقتصادی و تجارتی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون کو گہرا کرے گی۔ قراقرم ہائی وے کے سال بھر کھلا رہنے سے لے کر “سرحدی باشندوں کے باہمی تجارتی حساب کتاب کے نمونے” کی تکمیل تک، سنکیانگ “مشترکہ مشاورت، تعمیر اور اشتراک” کی شاہراہ ریشم کی روح کو عملی اقدامات کے ذریعے واضح اجاگر کررہا ہے۔
چین اور پاکستان کی دوستی، جو کبھی شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے سنگِ میل پر کندہ تھی، آج سال بھر کھلے پاس کے ذریعے باہمی تعاون اور مشترکہ کامیابیوں کا نیا باب رقم کر رہی ہے۔ سنکیانگ کی جانب سے پاس کی تعمیر کو مسلسل گہرا کرنے اور کسٹم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے اقدامات نے نہ صرف چین-پاکستان تجارتی راستے کو ہموار کیا ہے، بلکہ عوام کے دلوں کے درمیان پل بھی تعمیر کیا ہے۔ سافٹ وئیر اور ہارڈ ویئر سہولیات کی مسلسل بہتری کے ساتھ، یہ کوہِ قراقرم کو پار کرنے والا سنہری راستہ، چینی مغربی علاقوں اور جنوبی ایشیا کو ملانے والی اقتصادی شریان ضرور بنے گا، چین۔پاکستان ہم نصیب معاشرے کے قیام اور ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ کو گہرا اور مضبوط کرنے کے لیے مزید ٹھوس حمایت فراہم کرے گا، اور شاہراہ ریشم کی تہذیب کو نئے دور میں مزید تابناک بنائے گا۔
