اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق چیف ایگزیکٹو پی آئی اے مشرف رسول اور محمد وقاص کے درمیان لین دین کے تنازعے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جس میں محمد وقاص کی جانب سے اپنے خلاف اسلام آباد میں درج مقدمات خارج کرنے کی درخواست پر دلائل دیے گئے۔
سماعت کے دوران علیم سہیل کی اہلیہ اور تین بچیوں کی لاہور سے مبینہ طور پر خلافِ ضابطہ گرفتاری سے متعلق انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی، جس پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد پولیس کا کردار باعثِ شرم ہے، جس انداز میں تفتیش کی گئی وہ ناقابلِ قبول ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا تفتیشی ٹیم نے لاہور پولیس سے رابطہ کیا یا وہاں جا کر تفتیش کی؟ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ وہ لاہور نہیں جا سکے، جس پر عدالت نے سخت اظہارِ ناراضی کیا۔
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ ایک خاتون اور تین بچیوں کو گھر سے اس طرح اٹھا لیا گیا، کیا پولیس افسران کو اس کے نتائج کا اندازہ ہے؟ عدالت نے ریمارکس دیے کہ لاہور سے سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے، پولیس کو شرم آنی چاہیے کہ اس نے تفتیش کا سارا عمل بے ایمانی سے مکمل کیا۔
عدالت نے کہا کہ پانچ مقدمات درج کیے گئے اور وہ بھی ایک ہی تنازعے میں، محض آخری مقدمے کو مضبوط کرنے کے لیے ایک اور مقدمہ درج کر لیا گیا۔ پولیس افسران نے نہ فائل کا مطالعہ کیا نہ مدعی سے بیان لیا، یہ سب ایک بااثر شخص کے ایما پر ہوا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملوث افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیں گے اور معاملہ ایف آئی اے کے سپرد کیا جائے گا تاکہ شفاف تفتیش ہو سکے۔
عدالت نے واضح کیا کہ جس گھریلو خاتون اور کمسن بچیوں کے ساتھ یہ رویہ اپنایا گیا، اس کا ذمہ دار پولیس ہے اور یہ بے ضابطگیاں معاف نہیں کی جا سکتیں۔
پولیس کے ڈائریکٹر لیگل طاہر کاظم کی جانب سے اس معاملے کو بے ضابطگی قرار دے کر معافی کی استدعا کی گئی، جس پر عدالت نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو بھی قانون پڑھنے کی ضرورت ہے۔
دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا اور پولیس افسران کو ہدایت کی کہ اپنی دفاعی تیاری کر لیں، اب انہیں اپنی ایف آئی آرز میں خود جواب دینا ہوگا۔
