اسلام آباد (آئی پی ایس )سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں عدالتی بنچز خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ آئین و قانون کے مطابق بنیں گے۔سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی بنچ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف کیس کی سماعت کی
دوران سماعت وکیل درخواست گزار عزیر بھنڈاری نے دلائل میں کہا 26 ویں آئینی ترمیم سے پہلے والا 16 رکنی فل کورٹ تشکیل دیا جائے یا سپریم کورٹ کے تمام 24 ججوں کو شامل کر کے فل کورٹ بنایا جائے۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا 31 اکتوبر 2024 والی کمیٹی کو ایسا اختیار حاصل تھا کہ ایسا فیصلہ کر سکتی؟ کیا کمیٹی نے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کیا؟۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 191 اے کو معطل کیے بغیر ایسا آرڈر کیسے کرسکتے ہیں؟ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کیا آئینی بنچ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کوئی اور بنچ بھی جوڈیشل آرڈر کے زریعے بنا سکے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ درخواست گزاروں کو اس آئینی بنچ پر اعتماد کیوں نہیں ہے؟ جس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ آئینی ترمیم میں ایسا میکانزم ہی نہیں ہے جس کے تحت جوڈیشل کمیشن ججز کی نامزدگی کیلئے پک اینڈ چوز کرے۔جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات تو کیس کے میرٹس سے متعلقہ ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر یہ کہا جائے آرٹیکل 191اے کے تحت نامزد ججز ہی آئینی کیسز سن سکتے ہیں تو پھر سپریم کورٹ کا اختیار سماعت تو جوڈیشل کمیشن کے ہاتھ میں آگیا، اگر کسی جج کو آئینی بنچ کیلئے نامزد نہ کیا جائے تو سپریم کورٹ میں کیا کوئی کیس نہیں سنا جائے گا۔بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 10 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا بنچ کی دستیابی کی صورت میں سماعت ہو گی۔