Wednesday, October 22, 2025
ہومپاکستانچھبیسویں ترمیم کیس، کان اور آنکھیں بند کرکے کسی کو ریلیف نہیں دے سکتے، جج سپریم کورٹ

چھبیسویں ترمیم کیس، کان اور آنکھیں بند کرکے کسی کو ریلیف نہیں دے سکتے، جج سپریم کورٹ

اسلام آباد (آئی پی ایس )سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں میں وکیل خواجہ احمد حسین نے معاملہ فل کورٹ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم دینے کی استدعا کردی۔ کہا یہ بینچ چھبیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستیں نہیں سن سکتا، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کیا آپ اس بینچ پر اعتماد نہیں کررہے؟ اگر ہم کیس نہیں سن سکتے تو فل کورٹ کے سامنے مقرر کرنے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟۔

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آٹھ رکنی آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت افراسیاب خٹک کے وکیل خواجہ احمد حسین روسٹرم پر آئے اور فل کورٹ کے سامنے معاملہ سماعت کیلئے مقرر کرنے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس ادارے کی ساکھ کا انحصار 26ویں آئینی ترمیم پر نہیں ہے، اس کیس کو دوسرے آزاد بینچ کی جناب سے سنا جانا چاہیے۔جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس بینچ پر اعتماد نہیں کررہے؟ وکیل احمد حسین نے موقف اپنایا 191اے پر فیصلہ اوریجنل فل کورٹ کی جانب سے ہونا چاہیے اور میں نہیں کہہ رہا کہ یہ بینچ آزاد نہیں۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے آپ نے ہی کہا کہ کیس دوسرے آزاد بینچ کے سامنے جانا چاہیے، کیا ہم ججز بھی اس آزاد بینچ کا حصہ ہوں گے؟ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کیا چیف جسٹس اس آزاد بینچ کا حصہ ہوں گے؟۔وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ چیف جسٹس بلکل اس بینچ کا حصہ ہونگے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا اگر ہم کیس نہیں سن سکتے تو حکم کیسے دے سکتے ہیں؟۔وکیل خواجہ احمد حسین نے موقف اپنایا کہ عدالت حکم کیلئے راستہ کیوں مانگ رہی ہے؟ ابھی تک تو وفاق نے فل کورٹ یا حکم دینے پر اعتراض نہیں اٹھایا۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہر وکیل کا اپنا موقف ہے، ہم آئین پڑھ کر سوال کررہے ہیں۔جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ کچھ وکلا نے تو کہا ترمیم کو ایک سائیڈ پر رکھ دیں۔ دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر سولہ ججز آتے ہیں تو کیا وہ ریگولر بینچ بن جائے گا؟ خواجہ حسین احمد نے کہا جی بالکل وہ آئینی بینچ نہیں رہے گا۔جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ کل ڈاکٹر عدنان نے بھی کہا کہ سپریم کورٹ اپنی جگہ اور بینچ اپنی جگہ ہے، آپ ہمیں یہ بتائیں کہ بینچز کا تصور کب سے ہے؟ وکیل خواجہ حسین احمد نے موقف اپنایا آپ کیوں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں راستہ دکھائیں۔

دوران سماعت جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 اے ون کو 191 اے تھری کے ساتھ ملا کر پڑھیں، یہ آرٹیکل کیا کہتا ہے؟ یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کیلئے ججز جوڈیشل کمیشن نامزد کرے گا اور آئینی معاملات آئینی بینچ کے علاوہ کوئی دوسرا بینچ نہیں سن سکتا۔انہوں نے کہا کہ ان آرٹیکل میں کوئی قدغن نہیں ہے، یہ پروسیجرل آرٹیکلز ہیں، یہ آرٹیکل بینچز پر تو قدغن لگاتے ہیں، لیکن سپریم کورٹ پر نہیں۔ ہم ان آرٹیکلز کو ایسے پڑھ رہے ہیں جیسے یہ آرٹیکل مکمل طور پر قدغن لگاتے ہیں، قدغن کہاں ہے؟ کیا ہم ان کی تشریح یوں کر سکتے ہیں کہ فل کورٹ معاملہ سن سکتا ہے؟۔جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل خواجہ احمد حسین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ابتدا میں کہا تھا کہ سولہ رکنی فل کورٹ آئینی بینچ نہیں رہے گا، وہ ایک ریگولر بینچ ہوگا، آپ کے ان دلائل سے تو میں مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں۔ خواجہ احمد حسین نے موقف اختیار کیا کہ اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ کے ہاتھ بندھے ہیں تو ایسا نہیں ہے، ایسا کہیں نہیں لکھا کہ ایک آئینی بینچ فل کورٹ کو معاملہ ریفر نہیں کرسکتا۔جسٹس جمال مندو خیل نے سوال کیا کہ یعنی ہم اس کیس کو کسی ریگولر یبنچ کو نہیں بھجوا سکتے لیکن فل کورٹ کو بھجوا سکتے ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے تو پھر تو وہ ریگولر ہی ہوگیا نہ، انہوں نے کہا تھا سولہ رکنی بینچ ریگولر ہوگا۔خواجہ احمد حسین نے کہا کہ آپ کے اختیارات آپ سے چھین نہیں لیے گئے، کل 27ویں ترمیم میں پارلیمنٹ فیصلہ کرتی ہے کہ سپریم کورٹ کے اوپر ایک ایگزیکٹو افسر بیٹھے گا، کیا آپ لوگ اس فیصلے کو دیکھ نہیں سکیں گے؟ بالکل دیکھ سکیں گے۔ آپ کہہ رہے ہیں راستہ دکھائیں، میں کہہ رہا ہوں کہ راستہ موجود ہے۔ میری رائے کے مطابق تو اس ترمیم کو پاس کروانے کا پروسیجر ہی فالو نہیں ہوا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یہ سوال میرٹ پر دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل سے پوچھا جاسکتا ہے۔ جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنی اس درخواست کے ذریعے مرکزی ریلیف مانگ رہے ہیں۔ خواجہ احمد حسین نے کہا میری درخواست میں 26ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا نہیں ہے، یہ معاملہ فل کورٹ کے سامنے مقرر کرنے کی استدعا ہے۔جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا فرض کریں کہ کسی ترمیم کے ذریعے پوری سپریم کورٹ کے اختیارات لے لیے جاتے ہیں پھر کون سنے گا؟ وہی سپریم کورٹ سنے گی، بے شک اختیارات لے لیے جائیں لیکن سنے گی وہی۔ یہ باتیں ہوئی ہیں کہ چونکہ آئینی بینچ چھبیسویں آئینی ترمیم کا نتیجہ ہے تو اس لیے کیس نہیں سن سکتا۔وکیل احمد حسین نے کہا کہ یہ بینچ سپریم کورٹ کا حصہ ہے لیکن سپریم کورٹ اپنی جگہ موجود ہے، ایسی کوئی قدغن نہیں کہ آپ معاملہ فل کورٹ کو ریفر نہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ حتمی فیصلہ کریں، بس معاملہ فل کورٹ کو ریفر کردیں، آپ کے پاس آرڈر جاری کرنے کا اختیار ہے، اپنے اس اختیار کو کم مت سمجھیں۔ خواجہ احمد حسین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت جمعرات تک کیلئے ملتوی کردی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔