بیجنگ :
بین الاقوامی تنازعات کے حل کے موجودہ میکانزم کے ساتھ اعتماد کے بحران اور عالمی حکمرانی کے نظام میں تبدیلی کی فوری ضرورت کے پس منظر میں، بین الاقوامی تنظیم برائے ثالثی (انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار میڈی ایشن) نے 20 اکتوبر سےہانگ کانگ میں اپنے کام کا آغاز کر دیا ہے۔37 ممالک کی مشترکہ کوششوں سے قائم ہونے والی یہ نئی کثیرالجہتی تنظیم نہ صرف بین الاقوامی تنازعات کے حل کے طریقوں میں جدت کی علامت قرار پائی ہے، بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر قائم بین الاقوامی نظم و نسق کی ازسرنو تشکیل میں اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔ عالمی حکمرانی میں انصاف کے حوالے سے فکر مند بین الاقوامی برادری کے لیے اس کا قیام بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔
طویل عرصے سے، بین الاقوامی تنازعات کے حل کا میکانزم زیادہ تر مغربی ترقی یافتہ ممالک کے زیرِ تسلط رہے ہیں، جن کے قواعد کی تشریح اور طریقہ کار اکثر مخصوص مفاداتی گروہوں کی ترجیحات کی عکاسی کرتے ہیں۔ موجودہ ثالثی اداروں کو اکثر نمائندگی کی کمی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، یہاں تک کہ انہیں جغرافیائی سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ساختی عدم توازن کے نتیجے میں بہت سے ترقی پذیر ممالک کو روایتی میکانزم پر اعتماد کی کمی کا سامنا ہے، اور زیادہ غیر جانبدار پلیٹ فارم کی تلاش کی آوازیں دن بدن بلند ہو رہی ہیں۔
بین الاقوامی ثالثی تنظیم کا قیام اسی ضرورت کا جواب ہے۔ یہ ادارہ “مشترکہ مشاورت، تعمیر اور اشتراک ” کے اصول پر کاربند ہے، جس کے مرکز میں مفاہمت، تعاون اور ہم آہنگی کے تصورات ہیں۔ اس کا مقصد مساوات پر مبنی بات چیت کے ذریعے تنازعات کو حل کرنا ہے نہ کہ تصادم کا طریقہ کار اپنانا۔ اس کے کنونشن پر دستخط کرنے والے ممالک میں ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ سمیت متعدد خطوں کے ممالک شامل ہیں، جن میں پاکستان، کینیا اور نکاراگوا جیسے ممالک شامل ہیں، جو اس کے وسیع بین الاقوامی اتفاق رائے کی عکاسی کرتے ہیں۔
جیسا کہ چین کی نائب وزیر خارجہ ہوا چھون اینگ نے افتتاحی تقریب میں کہا کہ محض 5 ماہ کے قلیل عرصے میں، بین الاقوامی ثالثی تنظیم نے کنونشن پر دستخط، اس کے نفاذ اور عملی کام کا آغاز کر کے بین الاقوامی تنظیموں کی تعمیر کی تاریخ میں ایک منفرد رفتار کا مظاہرہ کیا ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بین الاقوامی ثالثی تنظیم زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہے اور بین الاقوامی برادری کی وسیع حمایت حاصل ہے۔ بین الاقوامی ثالثی تنظیم کے تصورات چین کے پیش کردہ گلوبل گورننس انیشی ایٹو سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں، جو مفاہمت، تعاون اور ہم آہنگی کی پیروی، انصاف اور عدل پر اصرار، مشترکہ مشاورت، تعمیر اور اشتراک کی پاسداری، انسانی مرکزیت کی وکالت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لیے قانونی مثبت قوت کا اضافہ کرے گی، نیز ہانگ کانگ کو “ثالثی کا عالمی شہر ” بنانے میں بھی مدد فراہم کرے گی۔ مزید ممالک کو بین الاقوامی ثالثی تنظیم میں فعال طور پر شامل ہونے اور بین الاقوامی تنازعات کے پرامن حل میں نئی شراکت کے لیے اس کا بھرپور استعمال کرنے کی خوش آمدید کہا جاتا ہے۔
بین الاقوامی ثالثی تنظیم کی بنیادی اہمیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی طرف واپسی میں مضمر ہے۔ چارٹر واضح طور پر “بین الاقوامی تنازعات کے پرامن حل” کی وکالت کرتا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں یکطرفہ پابندیوں اور طاقت کے استعمال کی دھمکیو ں ںے کثیرالجہتی نظریے کی بنیادوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہ ادارہ مقدمہ بازی اور تحکیم کے علاوہ “تیسری راہ” فراہم کر کے تنازعات کے سفارتی حل کی روایتی حکمت کو مضبوط کرتا ہے، جو اقوام متحدہ کی وسیع تر حکمرانی کی تجویز کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ بین الاقوامی ثالثی ادارہ موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، بلکہ اس کے ساتھ تکمیلی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم ممالک، خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے ممالک کو زیادہ منصفانہ ماحول میں اختلافات کو حل کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ اگر یہ مسلسل اصولوں کی بنیاد پر کام کرتا رہا، تو یہ “طاقت ہی حق ہے” کے گھٹیا رویے کو روکنے کا مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔
بین الاقوامی ثالثی تنظیم کا ہانگ کانگ میں قیام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بطور چین کا خصوصی انتظامی علاقہ، ہانگ کانگ کو “ایک ملک، دو نظام” کے تحت منفرد فوائد حاصل ہیں: بین الاقوامی معیارات کے مطابق قانونی ماحول تنازعات کے حل کے لیے زمین فراہم کرتا ہے؛ انتہائی کھلا ہوا تجارتی معاشرہ اور اعلیٰ معیار کی بین الاقوامی صلاحیتوں کے حامل افراد ادارے کے کام کرنے کی کارکردگی کو یقینی بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ، بین الاقوامی ہیڈ کوارٹر اکانومی کے نتیجے میں پیشہ ورانہ اداروں کے اجتماع نہ صرف ہانگ کانگ کی قانونی خدمات کی صنعت کو فروغ دیں گے، بلکہ دنیا پر یہ بھی ثابت کریں گے کہ ہانگ کانگ بین الاقوامی مرکز کے طور پر اپنی ذمہ داریاں پورا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
اگرچہ مستقبل کے امکانات روشن ہیں، بین الاقوامی ثالثی تنظیم کو ابھی چیلنجز درپیش ہیں: اول، رکن ممالک کی تعداد میں اضافہ کرنےکی ضرورت ہے ؛ دوم، قابل اعتماد مثالوں کے ذریعے ساکھ قائم کرنا ہوگی، یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس کی ثالثی کے نتائج پائیداراور قابل نفاذ ہیں۔ اس تنظیم کی صلاحیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ موسمیاتی تبدیلی، سپلائی چین کی سلامتی جیسے عالمی مسائل میں اضافے کے موجودہ دور میں، بین الاقوامی برادری کو کسی بھی وقت سے زیادہ مؤثر اور قابل احترام تنازعات کے حل کے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔ اگر بین الاقوامی ثالثی تنظیم “منصفانہ، عادلانہ اور دیانتدار” وعدے پر قائم رہ سکی، تو یہ عالمی حکمرانی کے نظام کو زیادہ جامع اور جمہوری سمت میں آگے بڑھانے کی اہم قوت بن سکتی ہے۔
بین الاقوامی ثالثی تنطیم کے قیام نے ہمیں یاد دلایا ہےکہ کثیر القطبی دنیا میں، کسی بھی ملک یا گروہ کی قواعد سازی پر اجارہ داری کا دور ختم ہو رہا ہے۔ صرف بین الاقوامی قانون اور کثیرالجہتی تعاون کا حقیقی احترام ہی پائیدار امن کے مستقبل کی تعمیر کر سکتا ہے۔