دمشق(آئی پی ایس )شمالی شام کے شہر حلب کے مختلف علاقوں میں پیر اور منگل کی درمیانی شب شامی سکیورٹی فورسز اور کرد جنگجوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد منگل کی صبح فریقین کے درمیان جنگ بندی طے پاگئی۔عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق یہ جھڑپیں اس وقت ہوئیں جب دمشق کی مرکزی حکومت اور شمال مشرقی شام کی کرد انتظامیہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔شامی سرکاری خبر رساں ادارے سانا کے مطابق پیر کی شب کرد قیادت میں کام کرنے والی شامی ڈیموکریٹک فورسز نے داخلی سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ایک اہلکار جاں بحق اور 4 زخمی ہوئے۔
سانا کے مطابق ایس ڈی ایف نے حلب کے شیخ مقصود اور اشرفیہ کے رہائشی علاقوں میں مارٹر گولوں اور بھاری مشین گنوں سے فائرنگ کی، جس سے شہری اموات بھی ہوئیں، تاہم زخمی یا جاں بحق ہونے والوں کی تعداد واضح نہیں کی گئی۔دوسری جانب ایس ڈی ایف نے چیک پوسٹوں پر حملوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے جنگجو کئی ماہ قبل اس علاقے سے واپس جا چکے ہیں۔شامی سرکاری ٹی وی نے منگل کی صبح اطلاع دی کہ فریقین کے درمیان جنگ بندی طے پا گئی ہے، تاہم مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
دمشق کی نئی قیادت نے مارچ میں امریکا کی حمایت یافتہ کرد قیادت کی حامل ایس ڈی ایف کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، ایس ڈی ایف ملک کے شمال مشرقی حصے کے بیشتر علاقوں پر قابض ہے۔اس معاہدے کے تحت ایس ڈی ایف کو اپنی فورسز کو نئی شامی فوج میں ضم کرنا تھا، تاہم اس پر عمل درآمد رک گیا ہے۔دمشق کی حکومت پورے شام پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے، جب کہ ایس ڈی ایف شمال مشرقی شام میں اپنی عملی خودمختاری برقرار رکھنے پر بضد ہے، اتوار کو شام کے بیشتر علاقوں میں پارلیمانی انتخابات ہوئے، لیکن ایس ڈی ایف کے زیرِ قبضہ علاقوں میں ووٹنگ نہیں کرائی گئی۔
اپریل میں، ایس ڈی ایف کے درجنوں جنگجو دمشق سے طے پانے والے اسی معاہدے کے تحت حلب کے دو غالبا کرد علاقوں سے نکل گئے تھے۔منگل کو جاری ایک بیان میں ایس ڈی ایف نے حکومت کے عسکری دھڑوں پر الزام عائد کیا کہ وہ حلب کے دونوں علاقوں میں عام شہریوں کے خلاف بار بار حملے کر رہے ہیں اور ان پر محاصرہ مسلط کر رکھا ہے۔
ایس ڈی ایف کے مطابق سرکاری فورسز نے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ پیش قدمی کی کوشش کی، اور رہائشی علاقوں کو مارٹر گولوں اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا، جس سے شہری ہلاکتیں اور املاک کو شدید نقصان پہنچا۔بیان میں مزید کہا گیا کہ ان حملوں نے مقامی آبادی کو مشتعل کیا، جس کے بعد انہوں نے اندرونی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر اپنا دفاع کیا۔