Wednesday, September 10, 2025
ہومکالم وبلاگزکالمزوہ گھر جو قائد نے بنایا

وہ گھر جو قائد نے بنایا


تحریر: محمد محسن اقبال


ہر انسان ایک خواب دیکھتا ہے—اپنے ذاتی گھر کا خواب۔ ایسا مکان جو صرف اینٹ اور گارے کا ڈھانچہ نہ ہو بلکہ تحفظ، خوشی اور پائیداری کا استعارہ ہو۔ ایک ایسا آشیانہ جہاں اس کا خاندان عزت و وقار کے ساتھ زندگی بسر کرے، ہر بیرونی خطرے سے محفوظ ہو، قدرتی آفات کے طوفانوں سے بچا رہے اور تقدیر کے ناپسندیدہ وار سے مامون ہو۔ گھر کا سربراہ اپنی ہمت اور اپنے پیاروں کے تعاون سے اس خواب کو حقیقت میں ڈھالتا ہے۔

اپنی عمر بھر کی کمائی، اپنی محنت اور اپنی توانائیاں اس پر صرف کرتا ہے۔ وسائل خواہ ناکافی ہوں، خواہ خواہشات وسائل سے بڑھ کر ہوں، وہ ہمت نہیں ہارتا۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ مشورہ کرکے ایک تصوراتی اور حقیقی نقشہ بناتا ہیکہ آج بنیاد ڈالیں گے، کل جب حالات سنوریں گے تو دیواریں اونچی کریں گے، تزٗین و ٓآراٗیش کریں گے اور بنیادوں کو مزید مضبوط بنائیں گے۔
لیکن زندگی کے قوانین اٹل ہیں۔

ہر آنے والا ایک دن رخصت ہوتا ہے اور اپنی محنت، اپنے خواب اور اپنی امانت اپنے وارثوں کے حوالے کر جاتا ہے۔ وہ باپ جس نے گھر تعمیر کیا، ایک دن اپنے رب کے حضور حاضر ہو جاتا ہے۔ پھر یہ ذمہ داری اہلِ خانہ کے کندھوں پر آجاتی ہے کہ باقی خلا کس نے پر کرنا ہے، کمزوریاں کس نے دور کرنی ہیں اور باپ کی وراثت کو کون سنبھالے گا؟


ایسا ہی کردار قائداعظم محمد علی جناح نے اس ملک، پاکستان، کے لیے ادا کیا۔ وہ کوئی عام رہنما نہ تھے؛ وہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے وطن کے معمار تھے۔ انہوں نے وہ آسائشیں قربان کیں۔ اپنے وقت کے سب سے کامیاب وکیل، جو چاہتے تو ہندوستان یا انگلستان میں شان و شوکت کے ساتھ زندگی گزار سکتے تھے، مگر انہوں نے ذاتی آرام کو ترک کرکے سیاست کے طوفانوں کا رخ کیا۔ وہ تنِ تنہا دو بڑے مخالفوں—برطانوی سامراج اور ہندو اکثریتی قیادت—کے خلاف کھڑے ہوئے اور ان کے ناپسندیدہ ہاتھوں سے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن چھین کر دکھایا۔ 14 اگست 1947 کو بے شمار قربانیوں اور ناقابلِ شکست عزم کے بعد پاکستان وجود میں آیا۔


مگر یہ کیسی پیدائش تھی؟ یہ ملک آسائش میں نہیں بلکہ خون اور آگ میں جنم لے رہا تھا۔ لاکھوں مسلمان جلتی ہوئی راہوں اور دشمنانہ سرحدوں کو عبور کرکے پاکستان پہنچے۔ بے شمار شہید کیے گئے، بے گھر ہوئے، یا بے یار و مددگار رہ گئے۔ وسائل کی کمی تھی؛ نہ صنعتیں، نہ بینک، نہ انتظامی ڈھانچے۔ پاکستان کو خزانے میں سے صرف 750 ملین روپے ملنے تھے، وہ بھی دو قسطوں میں، اور بھارت نے جان بوجھ کر ضروری سامان اور وسائل روک لیے۔ مہاجرین کے کیمپ بھر گئے، وبائیں پھیل گئیں، اور نوزائیدہ حکومت کچی عمارتوں میں دفاتر قائم کرنے پر مجبور ہوئی۔ مگر ان سب ناممکن حالات کے باوجود قائد نے ہمیں حوصلہ دیا۔ انہوں نے کہا پاکستان ہمیشہ قائم رہے گا، یہ تقدیر کی تکمیل ہے، اور اگر ہم اتحاد، ایمان اور قربانی کے ساتھ چلیں تو ایک عظیم قوم بن کر ابھریں گے۔


مگر تقدیر سخت نکلی۔ قائد کو اپنے خواب کی تکمیل تو دیکھنے کو ملی لیکن اسے پروان چڑھانے کی مہلت نہ ملی۔ قیامِ پاکستان کے محض تیرہ ماہ بعد، 11 ستمبر 1948 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور قوم یتیم ہوگئی۔ وہ بنیاد ڈال گئے، ایک واضح نقشہ دے گئے۔ ان کی تقاریر، ان کے الفاظ، ان کی تحریریں—سب نے ایک ایسے مستقبل کی نشاندہی کی جس میں پاکستان ایک جدید، ترقی پسند اور اسلامی جمہوریہ ہوتا، جہاں اسلام کی روح اور دورِ جدید کی ضروریات ہم آہنگ ہوتیں۔


آج بھی ایک سوال ہمارا پیچھا کرتا ہے؛ کیا ہم نے، بطور وارث، اپنے قائد کے خواب کا حق ادا کیا؟ کیا ہم نے اس گھر کو مضبوط کیا جو انہوں نے بنایا، یا اپنی غفلت، خود غرضی اور اختلافات سے اسے کمزور ہونے دیا؟ اگر ہم اپنی ترقی کو قائد کے وژن کے پیمانے پر پرکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ کتنے خلا ابھی باقی ہیں۔ ہماری سیاست ذاتی مفادات میں الجھ گئی، ہمارے ادارے بدعنوانی کے بوجھ تلے کمزور ہوگئے، مارشل لا نے جمہوری تسلسل توڑ دیا، اور قومی وسائل مستقبل کی پروا کیے بغیر ضائع کر دیے گئے۔


آج بھی جب ہم قائد کا نقشہ دیکھتے ہیں تو تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ فرقہ واریت سے اوپر اٹھو، مگر آج بھی لسانی، مذہبی اور علاقائی تقسیم ہمیں توڑتی ہے۔ انہوں نے ضبط و نظم پر زور دیا، مگر بدنظمی نے بار بار ہمارے سیاسی اور انتظامی ڈھانچوں کو ہلا ڈالا۔ انہوں نے پاکستان کو ایک اقتصادی طاقت بنانے کا خواب دیکھا تھا، مگر دہائیوں کی ناکامیوں، ناقص حکمرانی اور غیر مستحکم پالیسیوں نے ہمیں قرضوں، مہنگائی اور بیرونی امداد کے بوجھ تلے جکڑ دیا ہے۔


لیکن پھر بھی، سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ قومیں خاندانوں کی طرح ڈگمگا سکتی ہیں، مگر سنبھل بھی سکتی ہیں۔ وہ گھر جو قائد نے بنایا تھا آج بھی قائم ہے۔ اس کی بنیادیں مضبوط ہیں، کیونکہ وہ قربانی اور خون سے ڈالی گئی تھیں۔ نقشہ ہمارے سامنے ہے؛ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس پر چلنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ کیا ہم وہ اتحاد، وہ ضبط، اور وہ ایمان لا سکتے ہیں جو قائد نے ہم سے چاہا تھا؟ کیا ہم چھوٹے چھوٹے اختلافات سے اوپر اٹھ کر اجتماعی بھلائی کے لیے قدم بڑھا سکتے ہیں؟


تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قومیں مسائل سے نہیں مرتیں بلکہ ان مسائل کا مقابلہ کرنے سے گریز کرنے پر برباد ہوتی ہیں۔ پاکستان نے جنگیں بھی جھیلی ہیں، مہاجرین کے سیلاب بھی سہے ہیں، قدرتی آفات بھی برداشت کی ہیں اور معاشی تنگیاں بھی۔ مگر اس کے عوام کی روح آج بھی زندہ ہے، ان کا حوصلہ آج بھی قائم ہے۔ اگر ہم قائد کے وژن کو پھر سے زندہ کرلیں، ان کی قربانیوں سے طاقت لیں اور ان کے نامکمل مشن کو آگے بڑھائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان دنیا کی عظیم قوموں میں اپنی جگہ نہ بنا سکے۔


قائد اعظم نے گھر بنایا تھا۔ انہوں نے محبت اور امید کے ساتھ ہمیں سونپ دیا۔ اب یہ ہمارے اوپر ہے—پاکستان کی آنے والی نسلوں پر—کہ ہم اسے سنبھالیں، سنواریں اور اسے اس طرح روشن کریں جیسے وہ خواب دیکھ کر گئے تھے، یا ہم اسے اپنی غفلت سے برباد کر دیں۔ فیصلہ ہمارا ہے، اور وقت ابھی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔