اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں ہزاروں اسرائیلی شہریوں نے ایک بڑے مظاہرے میں شرکت کی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس احتجاج کے دوران مظاہرین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کی جنگ کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کریں اور یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنائیں۔
تل ابیب میں فوجی ہیڈکوارٹر کے باہر کا علاقہ مظاہرین سے بھرا ہوا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں اسرائیلی جھنڈے اور یرغمال افراد کی تصاویر والے پلے کارڈز تھے۔
ایک بینر پر درج تھا ’غزہ کی جنگ جاری ہے، ٹرمپ کی میراث بکھر رہی ہے‘ جبکہ ایک اور بینر پر لکھا تھا ’صدر ٹرمپ! یرغمال افراد کو فوراً بچائیں!‘
تل ابیب کے رہائشی بوعز نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ واحد عالمی رہنما ہیں جو وزیراعظم نیتن یاہو پر اثرانداز ہو سکتے ہیں اور انہیں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے قدم اٹھانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔‘
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی پالیسیوں پر عوامی مایوسی بڑھ رہی ہے بالخصوص ان کے اس فیصلے پر جس کے تحت فوج کو غزہ شہر پر حملے کا حکم دیا گیا ہے جہاں ممکنہ طور پر یرغمالی موجود ہیں۔
یرغمال افراد کے اہل خانہ اور ان کے حامیوں کو خدشہ ہے کہ یہ کارروائی ان کے پیاروں کی جان کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
ایک شہری اورنا نیوٹرا کے بیٹے عمر کو سات اکتوبر 2023 کو قتل کیا گیا اور اس کی لاش اب بھی غزہ میں عسکریت پسندوں کے قبضے میں ہے۔ انہوں نے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ امریکہ فریقین پر دباؤ ڈالے گا تاکہ ایک جامع معاہدہ ہو سکے جو ہمارے بچوں کو واپس گھر لانے کا سبب بنے۔‘
تل ابیب میں ہر ہفتے مظاہرے ہو رہے ہیں جن میں عوام حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ حماس کے ساتھ جنگ بندی کرے تاکہ یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکے۔
اس حالیہ مظاہرے کے منتظمین کے مطابق ہفتہ کی شب کے مظاہرے میں دسیوں ہزار افراد شریک ہوئے جبکہ یروشلم میں بھی ایک بڑا مظاہرہ منعقد ہوا۔
اس سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران غزہ کی جنگ کے جلد خاتمے کا وعدہ کیا تھا تاہم اپنی دوسری مدتِ صدارت کے آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود کوئی واضح حل سامنے نہیں آیا۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ حماس کو شکست دینے کے لیے غزہ پر قبضہ
جمعے کو امریکی صدر نے کہا کہ واشنگٹن حماس کے ساتھ ’انتہائی گہرے‘ مذاکرات میں مصروف ہے۔
ادھر اسرائیلی افواج نے غزہ شہر کے مضافات پر شدید حملے کیے ہیں جہاں ایک عالمی ادارے کے مطابق لاکھوں فلسطینی قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔
اسرائیلی حکام نے غزہ میں بھوک کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے تاہم قحط کی تردید کی ہے۔ ہفتہ کو فوج نے شہریوں کو غزہ شہر چھوڑ کر جنوبی علاقوں کی طرف منتقل ہونے کی ہدایت دی۔
واضح رہے کہ غزہ شہر جو جنگ سے قبل تقریباً ایک ملین افراد کا مسکن تھا، اب بھی لاکھوں فلسطینیوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔
دوسری جانب حماس نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ اگر اسرائیل جنگ ختم کرنے اور غزہ سے اپنی افواج نکالنے پر رضامند ہوا تو وہ تمام یرغمال افراد کو رہا کر دیں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ غزہ شہر حماس کی مضبوط پناہ گاہ ہے، اس پر قبضہ اس گروہ کو شکست دینے کے لیے بہت ضروری ہے۔