Sunday, September 7, 2025
ہومکالم وبلاگزحجاب: پاکستان کی روایت، ترکیہ کا سفر

حجاب: پاکستان کی روایت، ترکیہ کا سفر

تحریر: شبانہ ایاز

اسلام میں حجاب محض ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک فلسفہ اور طرزِ زندگی ہے جو خواتین کے لیے عزت، حیا، احترام اور اسلامی شناخت کا مظہر ہے۔ مختلف تہذیبوں میں حجاب ہمیشہ بحث کا موضوع رہا ہے۔ اسے کبھی مذہبی عمل اور کبھی سماجی علامت کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ کچھ معاشروں میں اسے ذاتی انتخاب کے طور پر اپنایا جاتا ہے جبکہ کچھ میں اس پر پابندیاں لگائی گئی ہیں، جس سے مذہبی آزادی پر بحث چھڑتی ہے۔

مسلم دنیا میں پاکستان اور ترکیہ حجاب کے حوالے سے بالکل مختلف تجربات رکھتے ہیں۔ پاکستان میں یہ ایک گہری مذہبی و ثقافتی روایت ہے جبکہ ترکیہ میں یہ مزاحمت اور تبدیلی کی علامت ہے۔ یہ مضمون دونوں ممالک میں حجاب کے نقطہ نظر کو اجاگر کرتا ہے، فرق کو واضح کرتا ہے اور ساتھ ہی اس بات کو نمایاں کرتا ہے کہ حجاب خواتین کی عزت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔

پاکستان میں حجاب: ایمان اور ثقافت کی روایت

پاکستان کی بنیاد اسلامی اقدار سے جڑی ہے، جس نے ایسا ماحول پیدا کیا جہاں خواتین بلا جھجک حجاب اپنا سکتی ہیں۔ نسل در نسل پاکستانی خواتین نے حجاب کو اپنے مذہبی اور ثقافتی تشخص کا لازمی جزو بنایا۔ پاکستان میں حجاب محض مذہبی عمل نہیں بلکہ ایک ثقافتی روایت بھی ہے جو خواتین کی حیا اور عزت کی علامت ہے۔

2004 میں جماعتِ اسلامی خواتین ونگ نے پاکستان میں 4 ستمبر کو یومِ حجاب قرار دیا۔ یہ دن مصری خاتون مروہ الشربینی کی یاد سے بھی جڑا ہے جنہیں 2009 میں جرمنی میں حجاب پہننے پر قتل کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ دنیا بھر میں یکم فروری کو عالمی یومِ حجاب منایا جاتا ہے، پاکستان میں 4 ستمبر کو منایا جانے والا دن اس سانحے سے منسلک ہے تاکہ حجاب کو خواتین کی عزت، وقار اور اسلامی شناخت کی علامت کے طور پر اجاگر کیا جا سکے۔

ہر سال پاکستان میں سیمینارز، ریلیاں، کانفرنسز اور آگاہی مہمات منعقد کی جاتی ہیں تاکہ حجاب کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ میڈیا بھی اخباری مضامین، میگزین فیچرز اور ٹی وی پروگرامز کے ذریعے اس دن کو نمایاں کرتا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں حجاب کو وسیع پیمانے پر قبولیت حاصل ہے۔ اگرچہ کچھ شہری طبقے، جو مغربی ثقافت سے متاثر ہیں، اسے محض روایت سمجھتے ہیں لیکن اکثریت اسے خواتین کی عزت کا محافظ مانتی ہے۔ طالبات سے لے کر ڈاکٹرز، اساتذہ، وکلاء اور گھریلو خواتین تک، بے شمار خواتین حجاب کو اعتماد کے ساتھ اپناتی ہیں۔ کچھ صرف سر ڈھانپتی ہیں جبکہ کچھ نقاب یا برقع کا انتخاب کرتی ہیں۔ صورت جو بھی ہو، معاشرہ اس انتخاب کا احترام کرتا ہے اور اسے اسلامی تشخص کا عکس سمجھتا ہے۔

ترکیہ میں حجاب: تبدیلی کا سفر

ترکیہ میں حجاب کا تجربہ اس کے تاریخی اور ثقافتی پس منظر سے جڑا ہے۔ جمہوریہ کے قیام کے بعد جب سیکولر ریاست بنانے کے لیے اصلاحات کی گئیں تو مذہبی علامات، بشمول حجاب، پر جامعات اور سرکاری اداروں میں پابندیاں عائد کی گئیں۔ ان پالیسیوں نے حجاب پہننے والی خواتین کے لیے تعلیم اور ملازمت کے مواقع محدود کر دیے۔

مثال کے طور پر، یونیورسٹی کی طالبات کو کلاسز میں شامل ہونے یا امتحان دینے کے لیے اسکارف اتارنے پر مجبور کیا جاتا تھا، جو ان کے لیے شدید مشکلات کا باعث تھا۔ 1999 میں ایک خاتون رکنِ پارلیمنٹ کو، جو حجاب پہن کر منتخب ہوئی تھیں، حلف اٹھانے سے روک دیا گیا۔ یہ واقعہ حجاب پہننے والی خواتین کی جدوجہد کی واضح تصویر تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ سماجی اور سیاسی تبدیلیوں نے ان پابندیوں میں نرمی پیدا کی۔ 2000 کی دہائی میں ایسی قیادت سامنے آئی جو عوامی مطالبات کے مطابق تھی، اور رفتہ رفتہ یہ پابندیاں ختم ہونا شروع ہوئیں۔ 2012–2013 تک قوانین میں تبدیلی کی گئی، جس سے خواتین کو یونیورسٹیوں، سرکاری اداروں اور سرکاری تقریبات میں حجاب پہننے کی اجازت مل گئی۔ یہ تبدیلی ایک اہم سنگِ میل تھی، جس نے خواتین کو اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت آزادانہ طور پر اپنانے کا حق دیا۔

آج ترکیہ میں خواتین تعلیمی اداروں اور پیشہ ورانہ ماحول میں آزادانہ طور پر حجاب پہن سکتی ہیں۔ یہاں زیادہ تر خواتین سر ڈھانپنے والا اسکارف استعمال کرتی ہیں، جبکہ مکمل نقاب ثقافتی روایت کا حصہ نہیں ہے۔

پاکستان اور ترکیہ کا تقابلی جائزہ

دونوں ممالک مسلمان اکثریتی ہیں اور حجاب کو اپناتے ہیں، لیکن ان کا سفر تاریخی طور پر مختلف رہا ہے۔ پاکستان میں حجاب ہمیشہ مذہبی اور ثقافتی زندگی کا حصہ رہا ہے اور ریاستی سطح پر کبھی پابندی کا سامنا نہیں کیا۔4 ستمبر کو یومِ حجاب منانے کا اعلان پاکستان کی اس وابستگی کو ظاہر کرتا ہے کہ حجاب کو عزت اور اسلامی شناخت کی علامت کے طور پر پیش کیا جائے۔

ترکیہ میں البتہ حجاب دہائیوں تک سیکولر پالیسیوں کے باعث سخت پابندیوں کا شکار رہا۔ خواتین کو اپنے حق کے لیے لڑنا پڑا۔ 2012–2013 کی قانونی تبدیلیاں اس بات کی علامت بنیں کہ خواتین نے اپنا حق دوبارہ حاصل کیا۔

اعداد و شمار اس فرق کو ظاہر کرتے ہیں: پاکستان میں دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں اکثریت خواتین حجاب کا انتخاب کرتی ہیں اور زیادہ تر طالبات سر ڈھانپتی ہیں۔ ترکیہ میں بھی یونیورسٹی کی طالبات اور پیشہ ور خواتین میں حجاب کا استعمال بڑھ رہا ہے، لیکن اسے کئی خواتین مذہبی فرض کے بجائے ذاتی انتخاب سمجھتی ہیں۔

حجاب: شناخت کی علامت

مسلم دنیا میں حجاب ایک طاقتور روایت ہے جو حیا، عزت اور اسلامی تشخص کی نمائندگی کرتا ہے۔

پاکستان میں یہ ہر سال4 ستمبر کو منایا جاتا ہے اور مذہبی و ثقافتی زندگی کا اہم جزو ہے۔ ترکیہ میں برسوں کی جدوجہد کے بعد یہ خواتین کے لیے آزادی کی علامت بن چکا ہے کہ وہ اپنی شناخت کو کھل کر ظاہر کر سکیں۔

دونوں ممالک کے درمیان فرق کے باوجود ایک مشترک حقیقت ہے: حجاب محض لباس نہیں بلکہ ایک عورت کی عزت، روحانی وابستگی اور ذاتی انتخاب کا عکس ہے۔ سیاسی اور ثقافتی سرحدوں سے بالاتر، حجاب آج بھی خواتین کی شناخت کی ایک طاقتور علامت ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔