Sunday, September 7, 2025
ہومبریکنگ نیوزفل کورٹ اجلاس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 ججوں کے خطوط سامنے آگئے، اہم سوال اٹھا دیے

فل کورٹ اجلاس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 ججوں کے خطوط سامنے آگئے، اہم سوال اٹھا دیے

اسلام آباد ہائیکورٹ کا فل کورٹ اجلاس آج طلب کیا گیا ہے جب کہ اہم اجلاس سے قبل عدالت عالیہ کے 2 ججوں کے خطوط سامنے آگئے ہیں جن میں ہائیکورٹ میں شفافیت کی کمی پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ جسٹس بابر ستار اور جسٹس اعجاز اسحاق خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کو الگ الگ خط لکھے ہیں۔

بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں فل کورٹ میٹنگ سے پہلے بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے نام خط لکھ کر نیا پنڈورا باکس کھول دیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کے 4 صفحات پر مشتمل خط کی کاپی سامنے آگئی، چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے نام ججز کے خط کی کاپیاں تمام ججز اور رجسٹرار کو بھجوائی گئی ہیں۔

جسٹس بابر ستار کے خط کے مندرجات میں لکھا گیا ہے کہ کیا آج اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں؟ کیا ججز یقین کرتے ہیں کہ شہری اپنے بنیادی حقوق کا انہیں محافظ سمجھتے ہیں؟ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ نے ضلعی عدلیہ کو آزاد ادارہ بنانے کی کوشش کی؟

خط میں کہا گیا کہ روسٹر کی تیاری، کیسز فکس کرنے میں شفافیت کی کمی ہے، ہم روزانہ اپنے فیصلوں میں افسران کو کہتے ہیں کہ آپ بادشاہ نہیں نا ہی اختیارات بغیر حدود و قیود ہیں۔

چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ کیسز فکس کرتے وقت سینئر ججز کو نظر انداز کرکے ٹرانسفر اور ایڈیشنل ججز کو کیسز بھیجے جارہے ہیں۔ انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کیا ججز اور چیف جسٹس کو یاد نہیں رکھنا چاہیے وہ کنگ نہیں پبلک آفیشلز ہیں۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ کا آفس کچھ کیسز میں کاز لسٹ بھی جاری کرنے سے انکاری ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو رہی ہے، روسٹر جاری کرکے میرے سمیت سنگل بینچز سے محروم کرنا بھی ہم نے دیکھا ہے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ سینئر ججز کو انتظامی کمیٹی سے رولز کی خلاف ورزی میں الگ کیا گیا ایڈیشنل اور ٹرانسفر ججز کو شامل کیا گیا، آپ نے ججز کے بیرون ملک جانے کے لیے این او سی لینا لازمی قرار دیا گویا ججز کو ای سی ایل پر ڈالا گیا، ادارے بنانے میں دہائیاں لگتی ہیں تباہ کرنے میں کچھ وقت نہیں لگتا۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق کا بھی 2 صفحات پر مشتمل خط سامنے آگیا
دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ میں فل کورٹ میٹنگ سے قبل جسٹس سردار اعجاز اسحاق کا بھی 2 صفحات پر مشتمل خط سامنے آگیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل 92 نیوز نے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے خط کی کاپی حاصل کرلی۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق کے خط کے متن میں کہا گیا کہ فل کورٹ میٹنگ کے ایجنڈا میں اضافہ کریں، پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز کو گزٹ نوٹیفکیشن ہو چکا، فل کورٹ میٹنگ کے ڈیڑھ روز قبل رولز ججز سے رائے لینے کے لیے بھیجے گئے، لاہور ہائیکورٹ رولز اپنانے کے حوالے سے ججز کو پریزنٹیشن دی جانی چاہیے تھی۔

خط میں کہا گیا کہ اب ایسے معلوم ہوتا ہے فل کورٹ میٹنگ ایک رسم کے طور پر بلائی گئی ہے، اس صورت حال میں پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز کے حوالے سے میں اس حوالے سے معنی خیز رائے نہیں دے سکوں گا، انتظامی کمیٹی میں سینئر ترین اور سینئر ججز شامل نا کرنے کو ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے خط میں سوال اٹھایا کہ فل کورٹ کی منظوری کے بغیر کیوں پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز کا گزٹ نوٹیفکیشن ہوا؟ ججز کے بیرون ملک جانے سے قبل این او سی لازمی قرار دینے کے عمل ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے، ماسٹر آف روسٹر چیف جسٹس ہونے کی بنا پر کیسز دوسرے بنچز میں منتقل کرنے کو ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے۔

خط کے متن میں مزید کہا گیا کہ بغیر فل کورٹ منظوری پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز کے تحت تمام اقدامات غیر قانونی ہو سکتے ہیں، چیف جسٹس کے این او سی کے بغیربیرون ملک سفرسے ججزکو روکنے کی قانون اجازت نہیں دیتا، اب چیف جسٹس چاہے گا کہ جج چھٹیاں پاکستان میں گزارے یا بیرون ملک، ججز کے سفر کے حوالے سے بنیادی حق کی سنگین خلاف ورزی ہے، بینچز کی تشکیل کے حوالے سے مختلف آرڈرز ہوئے اس پر بھی فل کورٹ میں بحث ہونی چاہیے۔

ادھر اسلام آباد ہائیکورٹ میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس آج 2 بجے ہوگا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ہائیکورٹ سروس رولز اور پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز ایجنڈے میں شامل ہیں۔ ہائیکورٹ عمارت کی تعمیر میں مسائل کو ایجنڈے میں رکھا گیا ہے جب کہ فیملی ججزکے اختیارات کے حوالے سے معاملہ بھی ایجنڈا کا حصہ ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔