Monday, September 1, 2025
ہومکالم وبلاگزحضرت محمد ﷺ: تمام انسانیت کے لیے چراغِ ہدایت

حضرت محمد ﷺ: تمام انسانیت کے لیے چراغِ ہدایت


تحریر:محمد محسن اقبال


اللہ ربّ العزت نے اپنی لامحدود رحمت اور حکمت کے تحت ہمارے جدِ امجد حضرت آدم علیہ السلام اور امّاں حوّا کو اس دنیا میں بھیجا تاکہ انسانیت کا آغاز ہو اور تہذیب و تمدن کی کہانی شروع ہو۔ لیکن انسان کو کبھی بے یار و مددگار نہیں چھوڑا گیا۔ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آسمانی کتابیں نازل فرمائیں اور اپنے برگزیدہ رسول مبعوث کیے تاکہ بنی نوعِ انسان کو سیدھی راہ دکھائیں۔ حضرت نوح سے لے کر حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ سے حضرت عیسیٰ علیہم السلام تک ہر نبی نے توحید کی ابدی سچائی کی گواہی دی۔ لیکن جب خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تشریف لائے تو رسالت کا مشن اپنی تکمیل اور کمال کو پہنچا۔


آپؐ پر آخری آسمانی کتاب، قرآن مجید نازل ہوئی جو ہر دور اور ہر قوم کے لیے رہنمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ”یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے” (البقرہ 2:2)۔ اور ایک اور مقام پر فرمایا: ”اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر” (الانبیاء 21:107)۔ یہ رحمت صرف مسلمانوں تک محدود نہ تھی بلکہ ایک لامحدود سمندر کی مانند ساری کائنات پر محیط تھی—انسان و حیوان، مومن و غیر مومن، زمین و آسمان سب اس رحمت کے دائرے میں آ گئے۔


نبی کریم ﷺ کی مبارک ذات چلتا پھرتا قرآن تھی۔ آپؐ کا قول و فعل انسانیت کے لیے بہترین نمونہ تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی بہترین نمونہ ہے، اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہے” (الاحزاب 33:21)۔ آپؐ کی عاجزی بے مثال، آپؐ کا عدل ناقابلِ تزلزل اور آپؐ کی شفقت لامحدود تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ”مجھے بھیجا ہی اس لیے گیا ہے کہ میں اخلاق کے اعلیٰ معیار کو مکمل کر دوں” (مسند احمد)۔
عرب کے صحراؤں سے اٹھنے والا یہ پیغام براعظموں تک پھیل گیا اور تاریخ کا دھارا بدل گیا۔

شعرا، دانشور اور مفکرین—مسلمان ہوں یا غیر مسلم—سب اس عظیم المرتبت ہستی کے بارے میں لکھنے پر مجبور ہوئے جنہوں نے قوموں کی تقدیر بدل دی۔ ہر زبان میں اور ہر دور میں آپؐ کی مدح میں بے شمار کتابیں لکھی گئیں لیکن آپؐ کی عظمت قلم و زبان کی گرفت سے ماورا ہے۔


فرانس کے شاعر اور سیاست دان الفانس ڈی لامارتین نے اعتراف کیاکہ ”فلسفی، خطیب، رسول، قانون ساز، مجاہد، خیالات کا فاتح… بیس دنیوی سلطنتوں اور ایک روحانی سلطنت کے بانی، وہ محمدؐ ہیں۔ انسانی عظمت کے پیمانے پر اگر پرکھا جائے تو کیا ان سے بڑا کوئی ہے؟”


اسکاٹ لینڈ کے محقق ولیم مونٹگمری واٹ نے آپؐ کی سچائی پر گواہی دی کہ ”اپنے عقیدے کی خاطر اذیتیں سہنے کا حوصلہ، ان لوگوں کا اعلیٰ اخلاق جو آپ پر ایمان لائے اور آپ کو رہنما مانا، اور آپ کی کامیابیوں کی عظمت—یہ سب آپ کی بنیادی دیانت کی دلیل ہیں۔”


جارج برنارڈ شا نے کہا کہ ”انہیں انسانیت کا نجات دہندہ کہا جانا چاہیے۔ میرا یقین ہے کہ اگر ایسا شخص آج دنیا کی قیادت سنبھالے تو وہ دنیا کے مسائل حل کر کے امن و سکون قائم کر دے۔”


تھامس کارلائل نے لکھا کہ ”ایک شخص نے کس طرح تنہا خانہ جنگی میں مبتلا قبیلوں اور بدووں کو بیس برس سے بھی کم عرصے میں ایک طاقتور اور مہذب قوم میں بدل دیا… یہ ایک خاموش اور عظیم روح تھی جو دنیا کو جگانے آئی۔”
روسی مفکر لیو ٹالسٹائی نے کہا: ”اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت محمد ﷺ ان عظیم مصلحین میں سے ہیں جنہوں نے معاشرتی ڈھانچے کی گہرائیوں کو بدلا اور ایک پوری قوم کو سچائی کی روشنی دکھائی اور ترقی و تہذیب کے دروازے کھول دیے۔”


مہاتما گاندھی نے اقرار کیا: ”اسلام تلوار سے نہیں پھیلا… بلکہ نبی کریم ﷺ کی سادگی، وعدوں کی پاسداری، اخلاص، بہادری اور اللہ پر کامل یقین نے دلوں کو جیتا۔”


اینی بیسنٹ نے کہا: ”جو کوئی بھی عرب کے عظیم پیغمبر کی زندگی اور کردار کا مطالعہ کرتا ہے وہ اس ہستی کے لیے سوائے احترام اور عقیدت کے کچھ محسوس نہیں کر سکتا۔”
انگلستان کے مورخ ایڈورڈ گبن نے مانا: ”محمدؐ کی سب سے بڑی کامیابی محض اخلاقی قوت سے حاصل ہوئی، بغیر تلوار کے ایک وار کے۔”


ریورنڈ بوسورتھ اسمتھ نے کہا: ”وہ قیصر بھی تھے اور پوپ بھی، لیکن قیصر تھے بغیر لشکروں کے، اور پوپ تھے بغیر دعووں کے۔”
جرمن شاعر گوئٹے نے آپ کو ”انسانیت کا ہیرو” قرار دیا جس کی زندگی ایک ”لازوال اور شاندار دھارے” کی مانند بہتی ہے۔
اینا میری شِمّل نے کہا: ”نبی اکرم ﷺ ہمیشہ کے لیے بہترین نمونہ ہیں… امت کے رگ و پے میں عشقِ رسول خون کی مانند دوڑتا ہے۔”
مائیکل ایچ ہارٹ نے تاریخ کے سب سے مؤثر افراد میں آپؐ کو سب سے پہلے مقام پر رکھا اور لکھا: ”وہ واحد شخصیت ہیں جو مذہبی اور دنیوی دونوں سطحوں پر بیک وقت کامیاب ہوئیں۔
واشنگٹن اِروِنگ نے آپ کو ایک سنجیدہ، سادہ اور عوام کا محبوب رہنما قرار دیا۔


سر تھامس آرنلڈ نے کہا کہ آپ کا پیغام ایک ایسا عقیدہ ہے جو ”انتہائی سادہ اور صاف ہے اور براہِ راست دلوں میں اترتا ہے۔”
یوں وحی ہو یا تاریخ، اولیا کی گواہی ہو یا مفکرین کا اعتراف—سب ایک ہی سچائی پر متفق ہیں: رسول اللہ ﷺ وہ نور ہیں جنہوں نے تاریکی کو روشنی میں بدلا۔ قرآن خود اعلان کرتا ہے: ”اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہ بنا کر، خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر، اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر” (الاحزاب 33:45-46)۔
نبوت کا تاج آپؐ پر ختم ہوا مگر آپ کا نور آج بھی زندہ ہے، آپ کی سنت ابدی ہے۔ آپؐ کے نقشِ قدم آج بھی امت کی دعاؤں میں، اذان کی صدا میں، اور ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن میں سنائی دیتے ہیں۔ آپؐ دنیا کے لیے رحمت بن کر آئے اور ہمیشہ رحمت رہیں گے۔ کوئی قلم آپ کا حق ادا نہیں کر سکا، کوئی زبان آپ کی مدح پوری نہ کر سکی۔ اور جیسا کہ لامارتین نے کہا اور تاریخ نے جواب دیا: کیا ان سے بڑھ کر کوئی انسان ہے؟

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔