اسلام آباد: فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی ) کے صدر عاطف اکرام شیخ، اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (آئی سی سی آئی ) کے صدر ناصر منصور قریشی اور یو بی جی کے پیٹرن انچیف ایس ایم تنویر نے بزنس کمیونٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ موجودہ معاشی صورتحال کے حوالے سے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
صدر آئی سی سی آئی ناصر منصور قریشی نے کہا کہ پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے اور معیشت کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پائیدار معاشی اصلاحات اور مسائل کے حل کے ذریعے ہی ملک کو اقتصادی ترقی کے راستے پر ڈالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بزنس کمیونٹی معیشت کی اہم اسٹیک ہولڈر ہے اور معیشت کی بحالی کے لیے حکومت کے ساتھ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے اپنے خطاب میں معاشی بحالی، پائیدار ترقی اور ثمرات کی نچلی سطح تک منتقلی کے لیے نئے صوبوں کے قیام کی تجویز کی بھرپور حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فیڈریشن کا مطالبہ ہے کہ صوبوں میں نئی انتظامی تقسیم کی جائے کیونکہ موجودہ انتظامی ڈھانچے کے ساتھ اتنی بڑی آبادی کو مؤثر انداز میں چلانا ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ڈسٹرکٹ اکانومی کا فروغ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ معیشت کی مکمل بحالی کے لیے بزنس کمیونٹی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ شرح سود کو سنگل ڈیجٹ پر لانا، بجلی کی قیمتوں میں کمی، انفراسٹرکچر کی ترقی اور نجکاری کے عمل کی تکمیل ناگزیر اقدامات ہیں۔ صدر ایف پی سی سی آئی نے کہا کہ فیڈریشن 2030 تک ملکی برآمدات کو 100 ارب ڈالر تک لے جانے کے مشن پر گامزن ہے اور اس کے لیے مقامی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہوگا۔
پیٹرن انچیف یو بی جی ایس ایم تنویر نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی معیشت میں بہت بڑا پوٹینشل ہے اور ہر شعبے سے کم از کم 5 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاون خصوصی ہارون اختر خان بہت اچھی انڈسٹریل پالیسی تیار کر رہے ہیں۔
ایس ایم تنویر نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کو میدان جنگ میں شکست دی ہے، اب وقت ہے کہ ہم “معرکہ معیشت” بھی سر کریں۔ بھارت اس وقت 4 ٹریلین ڈالر کی معیشت ہے جبکہ پاکستان کی معیشت 410 ارب ڈالر پر کھڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ زراعت تباہی کا شکار ہے اور کسی شعبے میں ویلیو ایڈیشن نہیں ہو رہی۔ کپاس کی پیداوار 15 ملین گانٹھ سے کم ہو کر 5 ملین گانٹھ رہ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک فیصد شرح سود میں کمی سے 3500 ارب روپے کے حکومتی قرضے کم کیے جا سکتے ہیں۔
پیٹرن انچیف یو بی جی نے مزید کہا کہ ملک میں 40 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہے جبکہ شرح سود کی مد میں سالانہ 12 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، لیکن دوسری جانب صرف 6 ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے جھکنا پڑتا ہے۔