Monday, September 1, 2025
ہومکالم وبلاگزامریکی مفادات، پاکستانی وسائل اور مستقبل کی راہیں

امریکی مفادات، پاکستانی وسائل اور مستقبل کی راہیں

تحریر: محمد محسن اقبال


پاک۔امریکہ تعلقات کی تاریخ کسی پرانے رشتے کی طرح ہے جس میں محبت بھی رہی، بے اعتمادی بھی اور وقتاً فوقتاً مایوسی بھی۔ کبھی یہ تعلقات قریبی دوستی کی مانند لگتے ہیں تو کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ فریقین میں سے امریکہ پاکستان کو بوقت ضرورت یاد کرتا ہے اور بعد ازاں فراموش کر دیتا ہے۔ یہ رشتہ مری کے پہاڑی موسم سے تشبیہہ دیا جا سکتا ہے۔ مری میں اگر صبح کے وقت دھوپ چمکتی ہو تو یہ گمان ہوتا ہے کہ پورا دن خوشگوار گزرے گا، مگر اچانک بادل اُمڈ آتے ہیں اور بارش کا سماں بنا دیتے ہیں۔ پاک۔امریکہ تعلقات کی فضا بھی کچھ ایسی ہی ہے—کبھی دھوپ اور کبھی گھٹا ٹوپ اندھیرا۔


امریکہ کے ممتاز مفکر نوم چومسکی نے ایک بار کہا تھا کہ پاکستان، واشنگٹن کی خارجہ پالیسی میں محض ایک ”اوزار” کی مانند رہا ہے۔ ان کے نزدیک امریکہ کے تعلقات کبھی مستقل دوستی پر مبنی نہیں رہے بلکہ ہمیشہ مفادات کے گرد گھومتے ہیں۔ سوویت یونین کے خلاف پاکستان کو اہمیت ملی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہا گیا، لیکن جیسے ہی منظرنامہ بدلا، پاکستان پر دباؤ بڑھا دیا گیا یا اسے تنہا چھوڑ دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کو دی جانے والی امریکی حمایت بھی دراصل جمہوریت کے فروغ کے لیے نہیں تھی بلکہ اڈوں، انٹیلی جنس نیٹ ورکس اور خطے میں اثرورسوخ کے لیے تھی۔


تاہم حالیہ مہینوں میں ایک پیش رفت نے پاکستان کے لیے امید کی کرن پیدا کی۔ امریکہ نے بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔ یہ وہ مطالبہ تھا جو پاکستان عرصہ? دراز سے کرتا آ رہا تھا۔ بی ایل اے بلوچستان میں نہ صرف بدامنی کو ہوا دیتی رہی ہے بلکہ سی پیک منصوبوں میں شامل چینی انجینئروں اور پاکستانی کارکنوں کو نشانہ بنا کر ترقی کی راہیں مسدود کرتی رہی ہے۔ اس اقدام کو اسلام آباد میں ایسے محسوس کیا گیا جیسے تپتی دوپہر میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا مل جائے۔


بلوچستان کی معدنی دولت اس فیصلے کو مزید اہم بناتی ہے۔ یہ صوبہ اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ہے۔ چاغی کے ریکوڈک میں دنیا کے سب سے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر ہیں، جو اگر بروئے کار لائے جائیں تو ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی پاکستان کو اہم مقام دلوا سکتے ہیں۔ سیندک کان دہائیوں سے قیمتی دھاتیں فراہم کر رہی ہے۔ دُکی، ہرنائی اور مچھ کے کوئلے کے ذخائر توانائی کے شعبے میں ریڑھ کی ہڈی بن سکتے ہیں۔ مسلم باغ اور خضدار میں کرومائیٹ، چاغی اور لورالائی میں اعلیٰ درجے کی سنگ مرمر، اور سُوئی گیس کے وسیع ذخائر بلوچستان کو پاکستان کی توانائی کا مرکز بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ رئیر ارتھ میٹلز، جپسم، چونا پتھر اور گرینائٹ کی کثرت بلوچستان کو عالمی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش مقام بنا دیتی ہے۔


صوبے کی جغرافیائی حیثیت بھی اپنی مثال آپ ہے۔ عرب سمندر کے کنارے گوادر کی گہرے پانی کی بندرگاہ نہ صرف چین کے لیے سی پیک کا مرکزی منصوبہ ہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور وسطی ایشیا تک رسائی کا بھی دروازہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن کی نگاہ میں بلوچستان کی اہمیت صرف چین کی سرمایہ کاری کے تحفظ سے نہیں بلکہ اپنے مستقبل کے تجارتی امکانات سے بھی وابستہ ہے۔ اگر اس خطے میں امن قائم ہوتا ہے تو گوادر نہ صرف چین بلکہ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے لیے بھی تجارتی اور اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ موجودہ امریکی صدر کی خارجہ پالیسی اپنے پیش روؤں سے کچھ مختلف ہے۔ ماضی کے امریکی صدور فوجی مداخلتوں اور طاقت کے مظاہرے پر زیادہ زور دیتے تھے، لیکن موجودہ صدر کی ترجیح بظاہر اقتصادی سفارت کاری، تجارتی معاہدوں اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری پر ہے۔ اس حکمت عملی نے عالمی سطح پر تعلقات کی نوعیت کو بدلنا شروع کر دیا ہے۔ بھارت، جو کل تک امریکہ کی انڈو۔پیسفک حکمت عملی کا اہم ستون سمجھا جاتا تھا، آج اپنی اندرونی سیاست، انسانی حقوق کے سوالات اور روس و مغرب کے درمیان توازن قائم رکھنے کی پالیسی کے باعث واشنگٹن کی ترجیحات میں کم اہم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے ایک نیا موقع ہو سکتا ہے، بشرطیکہ ہم اسے صحیح حکمتِ عملی سے بروئے کار لائیں۔


مگر یہاں سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کیا ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ پائیں گے؟ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ امریکہ کی حمایت وقتی اور مفاداتی رہی ہے۔ سوویت۔افغان جنگ میں ہمیں فرنٹ لائن اسٹیٹ بنایا گیا، مگر جیسے ہی جنگ ختم ہوئی، پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔ اسی طرح نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں تاریخ کا حصہ ہیں، لیکن جب حالات بدلے تو ہم پر دباؤ بڑھایا گیا اور بعض اوقات پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔ اس طرزِ عمل نے ہمیں بار بار یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ کیا ہم اپنی پالیسیوں کو بیرونی توقعات کے مطابق ڈھالتے رہیں گے یا اپنی داخلی ترجیحات کو مقدم رکھیں گے؟


اب وقت آگیا ہے کہ ہم بلوچستان کی ترقی اور وسائل کے منصفانہ استعمال کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔ اگر بلوچ عوام کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ اپنے وسائل کے اصل مالک اور ترقی کے حقیقی شراکت دار ہیں تو کوئی بیرونی تعاون دیرپا نہیں ہو سکتا۔ شفاف پالیسیاں، مقامی روزگار کے مواقع اور وسائل کی منصفانہ تقسیم ہی وہ اقدامات ہیں جو صوبے میں اعتماد اور سکون کی فضا پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر یہ اقدامات کیے جائیں تو بلوچستان کی معدنی دولت پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے کے ساتھ ساتھ قومی اتحاد کی علامت بھی بن سکتی ہے۔


پاک۔امریکہ تعلقات کے بدلتے موسم کی پیش گوئی شاید آسان نہ ہو۔ آج کا دن خوشگوار لگ سکتا ہے، لیکن کل کے بادل افق پر چھا سکتے ہیں۔ تاہم اصل سوال یہ نہیں کہ امریکہ کے رویے کیسے ہوں گے بلکہ یہ ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں کو کتنا مستقل اور خودمختار رکھتے ہیں۔ اگر ہم اپنے قومی مفادات کو محور بنائیں، عالمی تعلقات کو متوازن رکھیں اور اندرونی استحکام کو بیرونی ایجنڈوں کا غلام نہ بننے دیں تو ہمیں کسی کے بدلتے رویے سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ بادل آتے اور جاتے رہتے ہیں، مگر زمین کی مضبوطی—جیسی بلوچستان کی معدنیات سے بھرپور مٹی ہے—ہی ہماری اصل اور دائمی بنیاد ہونی چاہیے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔