تحریر عنبرین علی
گلگت بلتستان، قدرتی حسن سے مالامال، لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے ایک اور شناخت لے کر ابھر رہا ہے: ماحولیاتی تباہی کا شکار خطہ۔ مون سون کے حالیہ اسپیل میں گلگت میں شدید بارشوں کے نتیجے میں کئی علاقے زیرِ آب آ چکے ہیں، پل بہہ گئے، سڑکیں ٹوٹ گئیں، اور درجنوں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔ گلگت سے قبل آنے والا خوبصورت بابو سر ٹاپ اسوقت اموات کا گڑھ بن رہا ہے گزشتہ تین روز سے راستہ بند جبکہ بیشتر سیاح وہاں ہیوی فلڈ نگ کی نظر ہو چکے ہیں ،انکئ تلاش اب بھی جاری ہے ، چلاس میں بھی مون سون بارشوں نے تباہی مچا کر رکھ دی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس تباہی پر حکومتی ردِ عمل کہاں ہے؟ اور ذمہ دار ادارے خاموش کیوں ہیں؟کیا سارا کا سارا ملبہ مون سون بارشوں پر ڈالنا درست ہے یا پھر گلگت حکومت بھی اس کی ذمہ دار ہے ؟؟
یہ کہنا کافی نہیں کہ “قدرتی آفت” تھی۔ یہ سچ ہے کہ بارشیں شدید تھیں، لیکن کیا اس شدت کی پیش گوئی پہلے سے موجود نہیں تھی؟ محکمہ موسمیات نے الرٹ جاری کیا، مقامی صحافیوں نے وی لاگز میں بار بار خطرے کی نشاندہی کی، مگر نہ نالوں کی صفائی ہوئی، نہ حفاظتی بند بنائے گئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حکومت نے آنکھیں بند کر رکھی ہوں۔اور ہر بار سیاحوں کو لینڈ سلائیڈنگ کی نظر کر دیا ہو یہ سچ ہے کہ ہم قدرتی آفت کا مقابلہ نہیں کر سکتے ؟مگر کیا ہم بالکل آنکھیں بند کر دیں یا احتیاطی تدابیر اپنائیں ؟بیرونی ممالک میں بھی مون سون کے خطرات آئے مگر بروقت کچھ انتظامات کیے گئے اور زیادہ نقصان سے خود کو بچایا گیا ۔
اب آتے ہیں گلگت میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بری طرح متاثر ہونے کی طرف،کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اچانک گلگت میں موسمیاتی تبدیلیاں آگئیں ؟آجکل اچانک بادلوں کا پھٹ جانا ،لینڈ سلائیڈنگ اور گلاف ،اور آخر میں تمام شمالی علاقہ خطرے کی زد میں ہےاسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ پندرہ سے بیس سالوں میں گلگت میں جنگلات کا قتل عام تیزی سے ہوا ہےآج قدرت نے انتقام لینا ہی تھا ۔
جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے بعد بھی کچھ جنگلی چیڑ اور دھاڑ کے درخت رہ گئے تقریبا دس لاکھ درخت کاٹنے کے لیے وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے منظور دی،وزیراعلی خود جنگلات کٹوانے کی منظوری دیتے ہیں اور ٹمبر مافیا کے ساتھ مل کر جنگلات کی لکڑی کو باہر ایکسپورٹ کرواتے ہیں اور سیاست چمکاتے ہیں ۔اسوقت دیامر ڈسٹرکٹ میں بھی وزیر اعلی گلگت بلتستان نے درختوں کی کٹائی کی منظوری دے رکھی ہے ۔جبکہ جی بی عوام بھی اس سے باخبر ہے
وزیر اعلی کے اس ناجائز اقدام کے بعد اسوقت پورا گلگت بری طرح سیلاب کی زد میں ہے لیکن تا حال انھوں نے درختوں کی کٹائی کا فیصلہ واپس نہیں کیا ۔ایسے میں مون سون بارشیں اپنا اثر نہ دکھائیں گی تو کیا کریں گی۔
سیلاب سے قبل گلگت کے مقامی لوگ چیختے رہے کہ سیلاب آئے گا مقامی افراد نے سوشل میڈیا پر آواز اٹھائ مگر حکمران ٹمبر مافیا کے ساتھ مل کر اپنا کام جاری رکھتے رہے،اور اب پچھلے کوئی روز سے گلگت سیلابی ریلوں کی لپیٹ میں ہے مگر اب بھی حکمران خاموش ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اب گلگت کون بچائے گا؟۔