تحریر سدرہ انیس
دنیا بھر میں آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ معاشی، سماجی اور ماحولیاتی مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک نے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مختلف حکمتِ عملیاں اختیار کیں، جن میں کچھ کامیاب رہیں اور بعض نے سخت تنقید کا سامنا کیا۔ پاکستان، جہاں آبادی 25 کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے، اس عالمی تناظر سے سیکھ کر اپنی پالیسیوں کو بہتر بنا سکتا ہے۔
چین نے 1979 میں “ون چائلڈ پالیسی” نافذ کی، جس کے ذریعے آبادی کی رفتار کو مؤثر انداز میں روکا گیا۔ اگرچہ اس پالیسی کے سماجی مضمرات بھی ہوئے، لیکن مجموعی طور پر یہ حکومتی کنٹرول کی ایک مثال بنی۔ بنگلہ دیش نے تعلیم، خواتین کو بااختیار بنانے اور کمیونٹی بیسڈ فیملی پلاننگ پروگراموں کے ذریعے حیران کن کامیابی حاصل کی۔ ایران نے 1990 کی دہائی میں مذہبی رہنماؤں کی حمایت سے فیملی پلاننگ کو فروغ دیا، اور شرحِ پیدائش میں واضح کمی واقع ہوئی۔
پاکستان میں آبادی کنٹرول کے حوالے سے اب تک کی کوششیں محدود اثر رکھتی ہیں۔ بنیادی رکاوٹیں عوامی شعور کی کمی، مذہبی غلط فہمیاں، صحت کی سہولیات کا فقدان اور خواتین کی تعلیم و خودمختاری میں کمی ہیں۔ متعدد پالیسیاں بنی، مگر تسلسل اور سیاسی عزم کا فقدان رہا۔ 2018 کی قومی پاپولیشن پالیسی کے باوجود عملی میدان میں تبدیلی کم نظر آتی ہے۔
آبادی پر کنٹرول صرف حکومت کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا مشترکہ فرض ہے۔ عالمی تجربات سے یہ بات واضح ہے کہ مستقل مزاجی، عوامی شمولیت، خواتین کی شراکت اور سیاسی عزم سے ہی اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر پاکستان نے بروقت مؤثر اقدامات نہ کیے تو آبادی کا دباؤ ملک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جائے گا.