Monday, September 1, 2025
ہومکالم وبلاگزچینی مافیا: ریاست کے اندر ریاست

چینی مافیا: ریاست کے اندر ریاست

تحریر ڈاکٹر لیاقت خان جدون

پاکستان کی معیشت گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف اقسام کی مافیاز کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ ان میں ایک نہایت طاقتور اور گہرے اثرات کی حامل قوت “چینی مافیا” ہے۔ اس مافیا نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے۔ یہ وہ مخصوص طبقہ ہے جو ملک میں چینی کی پیداوار، قیمتوں اور برآمدات پر نہ صرف غیراعلانیہ کنٹرول رکھتا ہے بلکہ ریاستی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چینی مافیا صرف چند کاروباری افراد یا شوگر مل مالکان پر مشتمل نہیں بلکہ اس میں سیاستدان، بیوروکریٹس، برآمد کنندگان، اور مالیاتی اداروں سے جڑے افراد شامل ہیں۔ اس مافیا کا طریق واردات عام طور پر درج ذیل طریقے سے ہوتا ہے:مصنوعی قلت پیدا بھی کی جاتی ہے۔

مارکیٹ میں چینی ذخیرہ کر کے قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں۔حکومت سے سبسڈی حاصل کی جاتی ہے۔اسی چینی کو سستے داموں برآمد کر کے منافع کمایا جاتا ہے۔یہ تمام عمل ایک منظم اور بااثر نیٹ ورک کے تحت ہوتا ہے جسے چینی مافیا کہا جاتا ہے۔ سال 2020 میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے چینی بحران پر انکوائری کمیشن قائم کیا جس کی رپورٹ نے پہلی بار کچھ بڑے ناموں کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق جن شخصیات اور گروپس نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا، ان میں شامل تھے: جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے سابق رہنما، صنعتکار، اور جہانگیر ترین گروپ کے مالک۔ رپورٹ کے مطابق ان کی شوگر ملز نے اربوں روپے کی سبسڈی حاصل کی اور برآمدات سے بھی فائدہ اٹھایا۔ مخدوم عمر شہریار(رحیم یار خان گروپ)جنہوں نے چینی کی برآمدات سے بھاری منافع حاصل کیا۔ شہباز شریف خاندان(رمضان شوگر ملز)مسلم لیگ ن سے منسلک، ان کی ملز بھی سبسڈی وصول کرنے والوں میں شامل تھیں۔ چوہدری برادران الائنس شوگر ملز قاف لیگ، جن کا نام بھی چینی کے کاروبار سے وابستہ رہا۔ آصف علی زرداری خاندان ،نشاط، ٹنڈو اللہ یار، بدر شوگر ملز ، پیپلز پارٹی سے منسلک افراد بھی چینی کاروبار میں سرگرم پائے گئے ،سندھ میں کئی شوگر ملز کی ملکیت یہ رپورٹ نہ صرف چینی بحران کی وجوہات سامنے لائی بلکہ سیاست، کاروبار اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کو بھی بے نقاب کیا۔۔

ان تمام افراد یا گروپس پر الزام تھا کہ انہوں نے سبسڈی اور قیمتوں میں اضافے سے ناجائز منافع کمایا جبکہ عام شہری مہنگائی کے بوجھ تلے دب گئے۔ عوام پر اثرات :چینی مافیا کی سرگرمیوں کا سب سے بڑا شکار عام شہری بنتا ہے۔ روزمرہ کی اشیا میں چینی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اس کی قیمت بڑھنے سے نہ صرف براہِ راست مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ متعلقہ مصنوعات مثلا مشروبات، مٹھائیاں، بیکری آئٹمزبھی مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اگر اس رپورٹ کے مطابق ان شوگر مافیاء کو لگام دی جاتی تو آج پھر یہ ہی مافیاء چینی بحران نہ کرتی2020 سے 2025 کے دوران چینی کی قیمت کبھی 55 روپے فی کلو سے بڑھ کر 190 روپے فی کلو تک جا پہنچی۔ یہ اضافہ نہ پیداواری لاگت میں ہوا، نہ فصل میں کمی، بلکہ مافیا کی ذخیرہ اندوزی، کرپشن اور مصنوعی قلت اس کا بنیادی سبب بنی۔ حکومتوں کا کمزور کردارہر دور حکومت میں چینی بحران نے جنم لیا، لیکن عملی اقدامات نہایت کمزور اور وقتی نوعیت کے رہے۔ موجودہ اور سابقہ حکومتیں چینی مافیا کے خلاف سخت کارروائی کے دعوے تو کرتی رہیں، مگر جب انہی حکومتوں کے اتحادی، دوست، یا جماعتی قائدین ہی شوگر ملز کے مالک ہوں تو انصاف اور احتساب محض دعووں تک محدود رہ جاتا ہے۔ چینی مافیا کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟غیر جانبدار اور بااختیار ریگولیٹری ادارہ تشکیل دیا جائے۔سبسڈی کی فراہمی اور استعمال کی شفاف مانیٹرنگ کی جائے۔

ذخیرہ اندوزی پر فوری گرفت اور سخت سزا دی جائے۔شوگر ملز کے سیاسی مالکان کو کاروباری مفادات سے علیحدہ کیا جائے۔چینی کی قیمت مارکیٹ نہیں بلکہ لاگت کے اصول پر مقرر کی جائے۔ چینی مافیا صرف ایک تجارتی نیٹ ورک نہیں بلکہ یہ ایک “ریاست کے اندر ریاست” کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو حکومتی کمزوری، عدالتی بے بسی، اور عوامی بے حسی کا فائدہ اٹھا کر پروان چڑھتا ہے۔ اگر ریاست سنجیدہ نہ ہوئی، اور عوام نے آواز بلند نہ کی، تو چینی کے بعد آٹا، پیٹرول، گیس، بجلی سبھی شعبے انہی مافیاز کے شکنجے میں ہوں گے۔چینی بحران کا حل صرف سبسڈی روکنے یا قیمتیں کم کرنے سے نہیں آئے گا، بلکہ اس کے لیے ایک مضبوط سیاسی ارادہ، غیر جانبدار احتساب، اور عوامی دباو ناگزیر ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔