Friday, October 24, 2025
ہومکالم وبلاگزکھوتاکھومیں

کھوتاکھومیں

تحریر ۔۔۔آفتاب بھٹی
انسان واحد حیوان ہے جس میں گویائی کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ زبان انسان کی سب سے عظیم سماجی تخلیق ہے اس کے ذریعے سے انسان اپنے تجربات اور احساسات کو دوسروں تک پہنچاتا ہے اور چیزوں کا رشتہ زبان و مکان سے جوڑتا ہے یعنی وہ دوسروں سے ماضی’ حال’ مستقبل اور دور نزدیک کے بارے میں گفتگو کر سکتا ہے ۔اور اس طرح آنے والی نسلوں کے لیے تہذیب کا نہایت بیش قیمت اثاثہ چھوڑ جاتا ہے انسان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور حقیقی معنوں میں سماجی حیوان بھی نہیں ۔ بھیڑ ‘بکریاں’ مرغابیوں کے جھنڈ بظاہر سماجی وحدت نظر آتے ہیں لیکن ان میں کوئی سماجی رابطہ نہیں ہوتا وہ ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی الگ الگ اکائیاں ہیں وہ نہ مل کر اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی زندگی کا مدار ایک دوسرے سے مل کر کام کرنے پر ہوتا ہے حالانکہ انسان کے طبعی اوصاف یہی ہیں ۔

خیالات ہمارے ذہن کی فقط انفعالی یا مجہول کیفیت ہوتے ہیں یا وہ ہمارے طرز عمل یا معاشرے پر کوئی اثر نہیں ڈالتے حقیقت یہ ہے کہ خیالات میں بڑی طاقت ہوتی ہے خیالات انسان کے قوت عمل کوحرکت میں لاتے ہیں اس کی سرگرمیوں کا رخ متعین کرتے ہیں اس میں ایمان۔ یقین اور ولولہ پیدا کرتے ہیں اور اسے اپنی زندگی کا فلسفہ متعین کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ انسان اپنی تاریخ کا مصنف بھی ہے اور تاریخ کے ڈرامے کا اداکار بھی۔ تہذیب جب طبقات میں بٹ جاتی ہے تو خیالات کی نوعیت بھی طبقاتی ہوجاتی ہے اور جس طبقے کا غلبہ معاشرے کی مادی قوتوں پر ہوتا ہیاسی طبقے کا غلبہ زہنی قوتوں پر بھی ہوتا ہے یعنی معاشرے میں اسی کیخیالات کا سکہ چلتا ہے۔ طبقاتی تہذیبوں میں ٹکسالی افکار و عقائد کے خلاف “باغیانہ” خیالات بھی ابھرتے رہتے ہیں حکمران طبقہ ان خیالات کا سختی سے سدباب کرتا ہے ان خیالات کی تبلیغ کرنے والوں کو ملک و قوم کا دشمن یا مذہب دشمن قرار دیدیا جاتا ہے ان کی زبان بندی کی جاتی ہے ان کی تحریروں کو نذرآتش کیا جاتا ہے اور ضرورت ہو تو ان کو جان سے بھی مار دیا جاتا ہے۔ “باغیانہ” خیالات کا ظہور معاشرہ کے محکوم طبقوں میں “باغیانہ” تقاضوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔

آج پاکستان ایک بار پھر سابقہ ناقص معاشی اور خارجہ پالیسیوں اور حالیہ سیلاب سے ہونے والے شدید نقصانات کے سبب سنگین مشکلات سے دوچار ہے ۔جب سیاستدان ایک دوسرے کو گالیاں دینے اور ایک دوسرے پر الزام لگانے میں وقت گزاریں تو پھر عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ یہ 22 کروڑ مظلوموں کی تاریخ ہے یہ آمروں کے ظلم و تشدد کی کہانی ہے یہ ستم کی طویل رات کی داستان ہے یہ ہمارے وطن عزیز کی تاریخ کے وہ باب ہیں جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ماضی اپنی تمام تر خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ موج در موج ہم تک چلا آتا ہے۔ جب معاشی اور سیاسی بدحالی عروج پر ہے تو تمام سیاسی پارٹیاں اور عدل کی دیوی سیاست سیاست کھیل رہے ہیں عوام کا پرسان حال کوئی نہیں صرف 2022_23 میں 32 سے 34 ارب ڈالر بیرونی قرض کی صورت میں ادا کرنے ہیں آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق قرضے جی ڈی پی کے 80 فیصد تک ہو چکے ہیں جسے بہتر کرنے کے لئے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے پچھلے 75 سالوں میں جمہوریت اور آمریت کی انتھک کوشش رنگ لائی اوراسلامی جمہوریہ پاکستان کی “معیشت” کا “کھوتا “کھوہ” میں

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔