اسلام آباد،وفاقی سرکاری ملازمین کی طرف سے تنخواہوں میں اضافے کے معاملے پر شدید احتجاج ،پولیس کا ملازمین کے خلاف کریک ڈائون اور گرفتاریاں،مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ سمیت ربڑ کی گولیاں بھی برسائی گئیں، ملازمین کی طرف سے پولیس پر جوابی پتھرائو کیا گیا،جس سے کئی ملازمین اور پولیس اہلکار معمولی زخمی ہوئے، ریڈ زون میدان جنگ بنا رہا،سینکڑوں ملازمین کو گرفتار کر کے مختلف تھانوں میں منتقل کر دیا گیا ہے، وفاقی سیکرٹریوں سمیت سینکڑوں سینئر افسران دفاتر نہ پہنچ سکے، سرکاری امور ٹھپ رہے،کیبنٹ بلاک کا مرکزی داخلی دروازہ توڑ دیا گیا، مظاہرین نے سینیٹر شبلی فراز کو دفتر جاتے ہوئے روک لیا، دوسری طرف وفاقی حکومت نے وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اسپیشل الائونس پر رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اور سرکاری ملازمین ایک ہیں ‘حکومت بیٹھ کے مسائل کو حل کرنے کیلئے تیار ہے لیکن خزانے کی حالت ابھی اتنی اچھی نہیں ہے، احتجاج کے پیچھے 22 گریڈ والے شامل ہیں،قانون کے دائرہ میںرہ کر احتجاج کرنا سب کا حق ہے ، اگر سیاسی پارٹیاں ملوث ہو گئی تو اس کا نقصان ہو گا ‘ سرکاری ملازمین سیاست میں ملوث ہونگے تو نقصان میں ہونگے۔
تفصیلات کے مطابق سرکاری ملازمین جو گزشتہ کئی عرصہ سے تنخواہوں میں اضافے سے متعلق احتجاج کر رہے تھے،بدھ کو ملازمین کے احتجاج میں صوبوں سے آنے والے ملازمین نے شرکت کرنا تھی اور اعلان کیا گیا تھا کہ سرکاری امور ٹھپ کرتے ہوئے بھرپور احتجاج کیا جائے گا،دوسری جانب پولیس نے گزشتہ رات گئے ملازمین تنظیموں کے عہدیداران کے گھروں پر چھاپے مار کر گرفتاریوں کا عمل شروع کیا،جس میں سی ڈی اے مزدور یونین کے مرکزی عہدیداروں کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ پاک سیکرٹریٹ میں احتجاج کرنے والے ملازمین کے خلاف علی الصبح کارروائی کرتے ہوئے گرفتاریاں شروع کیں، چند سو ملازمین پاک سیکرٹریٹ کے باہر شاہراہ دستور پر سیکرٹریٹ چوک کے مقام پر احتجاج کرتے رہے اور ان مظاہرین نے پاک سیکرٹریٹ کے تمام بلاکس کے مرکزی دروازے بند کر دیئے،جس پر سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد پاک سیکرٹریٹ کے اندر محصور ہو کر رہ گئی، ملازمین کی طرف سے احتجاج میں شدت لاتے ہی پولیس نے دھاوا بول دیااور سینکڑوں ملازمین کو گرفتار کرلیا، اس دوران مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کی شیلنگ اور ربڑ کی گولیوں سمیت ہوائی فائرنگ بھی کی گئی جس سے کچھ دیر کے لئے مظاہرین منتشر ہوئے لیکن دوبارہ مظاہرین سڑکوں پر آ گئے اور نعرے بازی شروع کر دی، اس دوران آنسو گیس کی شیلنگ کے جواب میں مظاہرین پولیس پر پتھرائو بھی کرتے رہے، چار گھنٹے سے زائد وقت تک شاہراہ دستور میدان جنگ بنی رہی،سینئر پولیس افسران بھی موقع پر موجود رہے، مظاہرین نے کیبنٹ بلاک کا مرکزی دروازہ تھوڑ دیا جبکہ وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز کو دفتر جاتے ہوئے روک لیا گیا جس پر سینیٹر شبلی فراز نے ملازمین کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کے مطالبات سے متعلق وفاقی حکومت سے بات کریں گے، پولیس کی شیلنگ سے کئی ملازمین زخمی بھی ہوئے جبکہ مظاہرین کے پتھرائو سے بھی کچھ پولیس اہلکار معمولی زخمی ہوئے ۔ فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے ملازمین نے مین سری نگر ہائی وے دونوں اطراف سے ٹریفک کے لیے بلاک کردی۔دوسری طرف وزیر داخلہ شیخ رشید ، وزیردفاع پرویز خٹک اور علی محمد خان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی سرکاری ملازمین کے حوالے سے کابینہ میں گفتگو کی گئی تھی جس کے بعد کابینہ نے شیخ رشید احمد کے سربراہی میںکمیٹی بنائی تھی جو مسئلے کودیکھے ۔ کمیٹی میں علی محمد خان بھی ممبرہیں۔ کمیٹی اجلاس میں ملازمین کے ساتھ بہت سی باتوں پر اتفاق کیاگیا جن میں ان کی اپ گریڈیشن کا مطالبہ بھی شامل تھا ۔ وفاقی حکومت ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ فی الحال اسپیشل الائونس کی صورت میں کرنے کی خواہاں ہے جبکہ جو ن میں بجٹ کے آنے کے بعد یہ معاملہ خودحل ہو جائیگا ۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین جن کا مطالبہ ہے کہ بنیادی تنخواہ کے40 فیصد الانس دیا جائے جبکہ حکومت25 فیصد الانس دینے کو تیار ہیں۔ ان معاملات میں باتیں الجھ گئی ہیں اور اس پر گفتگو جاری ہے ۔ ملازمین کی جانب سے پہلے ایک گریڈ سے16 گریڈ کی تنخواہوں میں اضافہ کا مطالبہ تھا لیکن گزشتہ روز اچانک سے انہوں نے 22گریڈ تک کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیاہے ۔ پرویز خٹک نے کہا کہ حکومت بیٹھ کے مسائل کو حل کرنے کیلئے تیار ہے لیکن حکومت کی بھی اپنی ذمہ داری ہوتی ہیں اور خزانے کی حالت بھی اتنی اچھی نہیں ہے، اگر ملازمین اپنی مرضی کا مطالبہ منوانا چاہتے ہیں تو پھر تھوڑا انتظار کرلیں جون تک کمیٹی کی رپورٹ آ جائے گی اور سارے ملک میں اس کو نافذ کر دیا جائے گا ، جبکہ اس سے قبل حکومت اپنی طرف سے سپیشل الانس دینے کو تیار ہیں۔ اس موقع پر علی محمد خان نے کہا کہ احتجاج کرنیوالے ریاست کے ذمہ دار ہیں اورریاست کے ملازمین ہیں ، ملازمین کے مسائل پر حکومت کو فکر ہے ۔ امید ہے کہ یہ مسئلے جلد حل ہو جائیںگے ۔ میڈیا سے گفتگو میں شیخ رشید احمد نے کہا کہ ملازمین سے 22گریڈ کے بجائے 16 گریڈ تک کی بات ہوئی تھی جبکہ ہمیں پہلے ہی شک تھا کہ احتجاج کے پیچھے 22 گریڈ والے شامل ہیں ۔ حکومت کی طرف سے 60 فیصد اور25 فیصد الانس کی بات طے تھی اور میڈیا بھی بلایا گیا تھا ، وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ قانونکے دائرہ میںل احتجاج کرنا سب کا حق ہے ، اگر سیاسی پارٹیاں ملوث ہو گئی تو اس کا نقصان ہو گا جبکہ حکومت اور سرکاری ملازمین ایک ہیں ۔ سرکاری ملازمین سیاست میں ملوث ہونگے تو نقصان میں ہونگے ۔ ہم نہیں چاہتے کہ سرکاری ملازمین نقصان میں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر معاملات طے ہو جاتے ہیں تو وزیر اعظم فوری طور پر نوٹیفیکیشن جاری کر دیں گے جبکہ صوبائی ملازمین کا معاملہ صوبائی حکومت کرسکتے ہیں وہ بھی اس معاملے کو دیکھیں، وزیر داخلہ نے پی ڈی ایم کے 26مارچ کو لانگ مارچ کے حوالے سے کہا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ کسی بھی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور اس سے پہلے بھی الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کی اجازت دی ۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم پریکٹس کر رہی ہے اور دیگر شہروں میں جلسے کر رہی ہے جس سے ان کے اپنے ہی لوگ تھک رہے ہیں، پرویز خٹک نے صحافی کے سوال پر کہا کہ سینیٹ انتخابات 2018 میں پیسے لینے کی ویڈیوز سامنے آنے پر تحریک انصاف کے عبداللہ مایار نے کہا ہے کہ انہوں نے پرویز خٹک کے کہنے پر یہ سب کچھ کیا ہے، اس پر پرویز خٹک نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ بتہ مزے کی بات ہے کہ ووٹ بھی ہمارے بکے،17 ووٹ بکے، پارٹی سے نکالا اور عبیداللہ مایار کہتے ہیں ک ہم نے ان کو پیسے دیئے جبکہ میں نے کبھی اسے نہیں کہا کہ پیسے لیں، جہاں بکے ہیں وہ اسلام آباد میں گھر ہیں جب چاہیں بتا دوں گا اور ویڈیو جس جگہ بنائی گئی میں وہاں موجود نہیں تھا، محمد علی شاہ وہاں موجود تھے وہ سب دیکھ رہے تھے۔