پروفیسر جہانگیر خان ہوتی
2018 سے پاکستان میں بتدریج مہنگائی کا آغاز ہوا مہنگائی تو ہر دور کا عوامی تحفہ ہے مگر آج کے دور میں مہنگائی رکنے کا نام نہیں رہی موجودہ حکومت میں بار بار وزیروں اور وزارتوں کی تبدیلی کی وجہ سے کسی کام کو استحکام نہیں تین بار وزارت خزانہ کی تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی وزیر خزانہ نے یہ نہیں سوچا کہ ملک کے لیے کام کرلے تمام وزیر اپنی شہرت اور مراعات کے لیے کام کرتے ہیں دوسرے وزیروں اور مشیروں میں بھی گروپ بنے ہیں زیادہ تر مشیر غیر ملکی ہیں جن کو یہ معلوم نہیں کہ مہنگائی کیا ہوتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کبھی غربت نہیں دیکھی اور ٹی وی پر آکر گالم گلوچ اور مخالف جماعتوں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں الیکٹرانک میڈیا پرعوام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی بات تو کی جاتی ہے لیکن مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی تدابیر اور مشورے نہیں دیئے جاتے۔بلکہ روزانہ حکومت اور اپوزیشن کی پریس کانفرنس دکھائی جاتی ہے جس میں بڑے بڑے اینکرز حکومتی میڈیا اور اپوزیشن میڈیا کے ٹھکیدار نظر آتے ہیں جنہوں نے عوام کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹائی ہوئی ہے عوام مہنگائی کی ماری ہوئی ہے بجلی کے بلوں میں آٹے میں پٹرول چینی دال گھی دودھ اور گیس کے بلوں میں اضافے کی وجہ پریشان ہیاس وجہ سے ملک میں بدامنی بڑھ رہی ہے چوریاں ڈھاکے بڑھ رہے ہیں عمران خان کی حکومت سے پرزور الفاظ میں اپیل کی جاتی ہے کہ خدا راہ 22 کروڑ عوام نے الیکشن سے پہلے آپ کے وعدوں اور نعروں پر ووٹ دیا تھا مگر کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ لوگوں نے موجودہ کینٹومنٹ بورڈ کے الیکشن میں اپنی اکثریتی راے مسلم لیگ (ن) کے حق میں دی ۔اگر مہنگائی کا یہ بڑھتا ہوا مسئلہ نہ روکا گیا تو اگلے الیکشن میں تبدیلی سرکار کی گنجائش نہیں ہوگی ۔موجودہ وزیر دوسری پارٹیوں میں جائیں گے باہر ملک کے مشیر جہازوں میں بیٹھ کر اپنے پسندیدہ ملکوں میں چلیں جائیں گے۔غریب مظلوم عوام کا حساب کتاب دنیا و آخرت میں لیا جاے گا ۔۔۔