اسلام آباد (سب نیوز) اسلام آباد موضع طمعہ اور موہریاں میں ڈی ایچ اے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا نام استعمال کر کے پولیس کے ہمراہ غیر قانونی کارروائی نہتےافراد پر اندھادھند گولیاں برسادیں۔
مالکان کا کہنا ہے کے وہ آبائی ہیں، ان کے آباؤ اجداد کی جدی ملکیتی زمین جائیداد ہے،
فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ ڈی ایچ اے سپریم کورٹ کے نام پر ناجائز قبضہ اور خالی کروا رہی ہے۔
مقامی افراد کے مطابق احتجاج پر مظاہرین پر فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کی. یہ کھلی بدمعاشی ہے ،
آبائی زمینوں پے سیکشن فور بھی لگایا گیا وہ بھی غیر قانونی ہے سیکشن فور کسی عوامی مقصد ہسپتال یونیورسٹی سڑک کے لئے لگایا جاسکتا ہے،
یہاں ڈی ایچ اے وکلاء سرکاری افسران کے پلاٹس کے لیے مارگلہ اورچرڈ ہاؤسنگ کالونی بنانے کے لیے سیکشن فور قانون کا غلط استعمال کیا گیا 8/9 ہزار کنال آبائی زمینوں پے قبضہ کرلیا گیاہے لیکن ابھی بھی یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا کیونکہ اب اس گورگھ دھندہ میں پس پردہ رہ کےمقامی بااثر سیاسی حکومتی لینڈ مافیاکے کارندے سرکاری ملازمین اور کچھ دیگر مال بنانے کے لئے بھی متحرک ہیں ۔
فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی یا ڈی سی کے پاس کوئی قانونی اختیار نہیں ہاؤسنگ سکیم ہاؤسنگ کالونی بنانے کے لئے اور پرائیویٹ لوگوں اشرافیہ کو نوازنے کے لیے سیکشن فور لگا سکے اور ان کی زمین گھر چھتیں چھین کے اشرافیہ کونوازے سیکشن فور محض کسی عوامی مقصد کے لئے لگایا جا سکتا ہے، ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کے لئے نہیں
اور اہم چیز یہ ہے ۔
اسلام آباد میں سیکشن فور کا اختیار صرف اور صرف سی ڈی اے کے پاس ہے سی ڈی اے کو بھی ایک مخصوص مدت کے لئے 1960 میں اسلام آباد جب دارلخلافہ یہاں شفٹ ہو رہا تھا تو سرکاری عمارتوں کی تعمیر کے مقاصد کے لیے زمین کی ضرورت پوری کرنے کے لیے یہ اختیار دیا گیا تھا۔
گو کے سی ڈی اے نے بھی بعد میں آج تک اس قانون کو ہاؤسنگ سیکٹر بنانے کے لئے استعمال کیا اور تا حال کر رہا ہے جس کے خلاف مقامی لوگوں یہاں کے نمائندوں نے آواز بلند کی بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں کابینہ قومی اسمبلی سے ہاؤسنگ سکیم بنانے کے لیے اس قانون کے خاتمے کے لئے بل پاس کئیے اس سب کے باوجود فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ کے پاس ایسا کوئی قانونی اختیار بھی نہیں انہوں نے ڈی سی کے ساتھ ملی بھگت اس کو تجاوز کیا ایک غیر قانونی عمل سے لوگوں کی زمینیں چھینی گئی اور اس ادارے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی کے نام سے ظاہر ہے یہ سرکاری ملازمین کے لئے رہائشی سہولیات کے لئے بنایا گیا جو آج تک سرکاری ملازمین کو کچھ ڈلیور نہیں کر سکا لیکن انہوں پرائیویٹ غیر سرکاری سپریم کورٹ بار کے وکلاء کو نوازنے کے زبردستی لوگوں کی آبائی زمینیں ہتھیانے کا سلسلہ شروع کیا مزید اس غیر قانونی قبضہ کے لئیے ڈی ایچ اے کو بھی ساتھ ملا لیا مزید یہاں بھی جب کام نہیں بنا تو ساتھ دو غیر قانونی لینڈ پروائیڈر چوہدری نذیر چوہان اور کامران بلوچ ملا لئے ساتھ پولیس اور ان کے گارڈز کے ذریعے کچھ زمینیں اونے پونے سرکاری نرخ پے لی ایسی مثال سی ڈی اے یا ہاؤسنگ اتھارٹی کے دیگر کسی پروجیکٹ میں نہیں لینڈ پرووائیڈر پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی لوگوں کی زمینیں اونے پونے داموں ہتھیانے کے لئے کرتی ہیں اور پہلے یہ غیر قانونی سیکشن فور جگیوٹ میں علیم خان کی سوسائٹی کے علاقے میں لگایا اورچونکہ پلاٹس سپریم کورٹ کےوکلاء کو دینے تھے عدالت سے ایک وہاں کے حوالے سے فیصلہ لے لیا اور اندھیر نگری ایسی کےتوہین عدالت میں 2019 میں تمہ موہریاں کے خلاف فیصلہ لے کے قبضے کی پہلی کوشیش مزاحمت پےکی مقامی زمینداروں پے دہشت گردی کی ایف آئی آر درج ہوئی بعد میں ان میں سے کچھ لوگوں کو پیسے دےاپنے ساتھ زمینوں کی خریداری قبضہ کرنے کے لئے ملا لیا۔
اگر یہ مافیاز کا گٹھ جوڑ اور مشترکہ مفادات ناں ہوں ملک میں کوئی حقیقی انصاف پے مبنی عدالتی نظام ہو تو یہ غیر قانونی زمین ہتھیانےاور ظلم کا نظام کچھ دن بھی ناں چل سکے ۔
موضع طمہ موہریاں میں ایک عرصے اجتجاج پے لوگوں پے ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے مقامی لوگوں پے پولیس کا استعمال کر کےفائرنگ جعلی جھوٹی بے بنیاد ایف آئی آر گرفتاریاں تشدد سے دبایا جا رہا
پہلے لوگوں کی خالی کاشتکاری والی ہزاروں کنال زمینوں پے کھڑی فصلوں پے بلڈوزر چلا کےقبضہ کیا گیا اب لوگوں کے گھروں جن کی باقاعدہ رجسٹری انتقال موجود ہے جو حکومت کا ملک بھر میں سرکاری نظام ہے پٹواری تحصیلدار رجسٹرار ہیں انہیں حکومت ملک بھر میں تنخواہیں دیتی عام عوام کی زمین کی خرید وفروخت پے حکومت باقاعدہ ٹیکس لیتی ہے ہر سال ڈی سی ریٹ کے مطابق ایف بی ان زمینوں کی ویلیویشںن لگا کے ٹیکس مقرر کرتی ہے اس قانونی نظام کو اپنا کے جو گھر بنائے انہیں اور آبائی قبرستانوں کو گرانے کو مسمار کرنے کا سلسلہ جاری کر دیا ہے۔
فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی ڈی ایچ سپریم کورٹ بار کی ایماء پےاسوقت تک 9 ہزار کنال تک زمین پے قبضہ کر چکی ہیں۔
ساتھ شاملات کی زمینیں بھی جو ہاؤسنگ اتھارٹی کے اپنے بائی لاز میں ہے کے نہیں شامل کئے جاسکتے خرید سکتے ناں پیمنٹ ہوئی 1 ہزار کنال ان پے بھی قبضہ کر کے پلاٹس ڈویلپ
کئیے جارہے جو زمین کا سرکاری ریٹ 34 لاکھ کنال لگایا اس میں سے محض 14/15 سو کنال کی رقم ادا کی گئی
اس ظلم و بربریت کے نظام کی پاداش میں ہاؤسنگ اتھارٹی کے ڈائریکٹر لینڈ احسان الٰہی کو مقامی زمینداروں ابرار اور نوید نے قتل کیا جنہیں بعد ازاں پولیس مقابلے میں مار دیا گیا اس سے پہلے بھی ایک مقامی زمین پے قبضہ بچانے کےلئے نوجوان قتل ہو گیا۔
اس کے علاؤہ درجنوں لوگ مرد خواتین اپنی آبائی زمینوں کے تحفظ کے لئے گولیوں تشدد گرفتاری کا نشانہ بنے۔
اب جو گھروں اور قبرستانوں کو مسمار کر کے گھر چھین کے اشرافیہ کو نوازنے پلاٹ دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
اس سے مزید جانی مالی نقصان کا اندیشہ ہے ان کے ساتھ جڑی سینکڑوں ہزاروں کنال سرکاری زمین موجود ہیں اگر اتنا ضروری ہے تو پلان میں تھوڑی تبدیلی کر کے وہاں ان کو نوازا جا سکتا ہے مقامی آبادیوں اور قبرستانوں کو مسمار کرنے اور زور زبردستی کی ضرورت نہیں بہت ضروری ہے تو اس کا متبادل پلان ترتیب دیا جائے۔
