ماسکو(سب نیوز )روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے 19 دسمبر 2025 کو منعقد ہونے والی سال 2025 کی اختتامی پریس کانفرنس کے موقع پر صحافیوں اور روسی عوام کے سوالات کے جوابات دیے جس میں انہوں نے کہا کہ 2025 میں روس کی مجموعی قومی پیداوار کی شرحِ نمو ایک فیصد رہی۔ تاہم گزشتہ تین برسوں کے دوران مجموعی ترقی کی شرح 9.7 فیصد تک پہنچ گئی، جو زیادہ جامع اور حقیقت پسندانہ اشاریہ ہے۔ اس کے برعکس، اسی مدت میں یوروزون کی معاشی ترقی کی شرح 3.1 فیصد رہی۔ روس میں ترقی کی نسبتا کم رفتار ایک باقاعدہ پالیسی فیصلہ ہے، جو معیشت کے معیار، استحکام اور مضبوط معاشی بنیادوں کے تحفظ کے لیے ادا کی جانے والی قیمت ہے۔
برسلز میں روسی اثاثوں کو ضبط کرنے کی کوششوں کو چوری نہیں بلکہ ڈاکہ کہا جانا چاہیے، کیونکہ یہ اقدامات کھلے عام کیے جا رہے ہیں۔ تاہم یہ اقدام ابھی تک عملی صورت اختیار نہیں کر سکا، کیونکہ اس کے نتائج ذمہ دار فریقوں کے لیے نہایت سنگین ہو سکتے ہیں اور یہ نہ صرف ان کی ساکھ بلکہ عالمی مالیاتی نظام کی بنیادوں کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ بالآخر ضبط کیے گئے تمام اثاثوں کی واپسی ناگزیر ہوگی۔ روس اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بالخصوص قانونی اور آئینی راستوں کو اختیار کرے گا۔یہ دعوی کہ روس امن کی کوششوں کو مسترد کر رہا ہے، سراسر بے بنیاد ہے۔ ماسکو نے کھلے طور پر مفاہمت پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
اس مرحلے پر پہل کی ذمہ داری مکمل طور پر مغرب پر عائد ہوتی ہے، بالخصوص کیف کی حکومت اور اس کے یورپی سرپرستوں پر۔ روس مذاکرات اور پرامن حل کے لیے تیار ہے۔یورپ میں ایک نئے سلامتی نظام کے قیام کی کوششیں آج بھی نہایت اہم ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام سے قبل ہی یورپ میں ایسے سیکیورٹی نظام کی تجاویز پیش کی جا چکی تھیں جس میں نیٹو کی توسیع سے گریز، امریکا، مشرقی یورپ اور روس کو شامل کرنے اور کسی بھی فریق کو خارج کرنے یا اس کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت سے اجتناب کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ روس کسی غیر معمولی مطالبے پر اصرار نہیں کر رہا اور نہ ہی کسی ملک کے اپنے دفاع کے لیے طریقے اختیار کرنے کے حق کو چیلنج کر رہا ہے، تاہم یہ انتخاب دوسروں کے لیے، بشمول روس، کسی خطرے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔
یورپ کی حکمران اشرافیہ اپنی برسوں کی معاشی اور سماجی پالیسیوں کی ناکامی کو جارح روس کے بیانیے کے پیچھے چھپا رہی ہے۔ ایسے میں یورپ کے نام نہاد گرین ایجنڈا کی حقیقت خود سوالیہ نشان بن جاتی ہے، جب کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو دوبارہ فعال کیا جا رہا ہے اور ایٹمی بجلی گھروں کو بحال کیا جا رہا ہے۔ موجودہ صورتحال بڑی حد تک مغربی سیاست دانوں کی اپنی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جو کشیدگی میں مسلسل اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ پر روس کے ساتھ سازباز کے الزامات لگائے گئے تھے، مگر یہ الزامات بعد میں بے بنیاد ثابت ہوئے۔ نہ کسی سازباز کا کوئی ثبوت سامنے آیا اور نہ ہی روس کی جانب سے کسی مداخلت کی تصدیق ہو سکی۔ اس کے برعکس، یورپ کی سیاسی اشرافیہ کی جانب سے براہِ راست ، واضح اور علانیہ مداخلت دیکھی گئی۔ یورپ میں بعض حلقے اب بھی توقع رکھتے ہیں کہ 2026 کے امریکی وسط مدتی انتخابات سیاسی منظرنامے کو متاثر کر سکتے ہیں اور صدر ٹرمپ پر دبا بڑھانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔مساوی قوتِ خرید کے لحاظ سے اگر روس اور یورپی ممالک کی مجموعی قومی پیداوار کو یکجا کیا جائے تو وہ امریکا سے بھی زیادہ بنتی ہے۔
اگر فریقین تصادم کے بجائے اپنی مشترکہ صلاحیتوں کو مثر انداز میں بروئے کار لائیں تو باہمی خوشحالی ممکن ہے۔ روس یورپ سے جنگ نہیں کر رہا، بلکہ یورپ یوکرینی قوم پرستوں کے ذریعے روس کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ اگر درمیانی اور طویل مدت میں روس کی سلامتی کی ضمانت دی جائے تو ماسکو فوری طور پر عسکری کارروائیاں روکنے کے لیے تیار ہے۔میں توقع کرتا ہوں کہ کلینن گراڈ کے علاقے کے محاصرے کی نوبت کبھی نہیں آئے گی، تاہم اگر اس نوعیت کے خطرات پیدا کیے گئے تو ان کا سدِباب کیا جائے گا۔ سب کو یہ حقیقت ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ایسے اقدامات غیر معمولی کشیدگی کو جنم دے سکتے ہیں، تنازع کو ایک مختلف اور زیادہ سنگین سطح تک لے جا سکتے ہیں اور اسے بڑے پیمانے کی مسلح محاذ آرائی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔نیٹو کی قیادت کی جانب سے سامنے آنے والے جارحانہ بیانات باعثِ تشویش ہیں۔
امریکا کی تازہ ترین قومی سلامتی کی حکمتِ عملی میں روس کو بطور دشمن پیش نہیں کیا گیا، حالانکہ امریکا نیٹو کا مرکزی کردار، بانی اور سب سے بڑا سرپرست ہے۔ اس کے باوجود نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے روس کے ساتھ جنگ کی تیاری سے متعلق گفتگو کرتے نظر آتے ہیں، جو نیٹو کے سرکردہ رکن کے مقف سے مطابقت نہیں رکھتی اور بعض مغربی رہنماں کے طرزِ بیان اور ذمہ دارانہ رویے پر سوالات کھڑے کرتی ہے۔ہم برطانیہ، پورے یورپ اور امریکا کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں، مگر صرف برابری کی بنیاد پر اور باہمی احترام کے ساتھ۔ اگر کبھی ایسا موقع آیا تو اس کے ثمرات تمام فریقوں کے لیے مفید ثابت ہوں گے
