ر یاض : چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے ریاض میں سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کے ساتھ مل کر چین-سعودی عرب اعلیٰ سطحی مشترکہ کمیٹی کی سیاسی ذیلی کمیٹی کے پانچویں اجلاس کی صدارت کی۔ پیر کے روز چینی میڈیا کے مطابق وانگ ای نے کہا کہ حالیہ برسوں میں چینی صدر شی جن پھنگ اور سعودی فرماں رواں شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان کی اسٹریٹجک رہنمائی میں، دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تبادلے اور تعاون صحت مند اور ہموار انداز میں انجام پائے ہیں ۔
چین اور سعودی عرب کے تعلقات تیزی سے دو طرفہ دائرہ کار سے آگے بڑھ رہے ہیں اور اسٹریٹجک لحاظ سے زیادہ اہم اور عالمی سطح پر بااثر ہو رہے ہیں ۔ وانگ ای نے کہا کہ چین نے ہمیشہ سعودی عرب کو مشرق وسطیٰ کی سفارت کاری کے لیے ترجیحی سمت اور عالمی سفارت کاری میں ایک اہم شراکت دار سمجھا ہے۔ چین دونوں ممالک کے رہنماؤں کے اہم اتفاق رائے کو نافذ کرنے، چین-سعودی تعلقات کی سمت کو سمجھنے، ایک دوسرے کے بنیادی مفادات سے متعلق مسائل پر ایک دوسرے کی مضبوطی سے حمایت کرنے،
مختلف شعبوں میں تعاون کو مربوط کرنے، جامع اسٹریٹجک شراکت داری کو مسلسل بڑھانے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے تاکہ چین-سعودی عرب تعلقات کو باہمی فائدے، باہمی اعتماد، یکجہتی اور تعاون کے نئے معیار تک پہنچایا جائے اور دو طرفہ تعلقات کو اعلیٰ سطح تک بڑھایا جا ئے ۔ چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ چین اور سعودی عرب اہم اقتصادی اور تجارتی شراکت دار ہیں۔ چین پندرہویں پانچ سالہ منصوبے کے دوران اپنے کھلے پن کو مزید وسعت دے گا جس سے چین-سعودی عرب تعاون کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ دونوں فریقوں کو توانائی اور سرمایہ کاری جیسے روایتی شعبوں میں تعاون کو مضبوط کرنا اور نئی توانائی اور سبز تبدیلی جیسے نئے شعبوں میں تعاون کو بڑھانا چاہیے،تاکہ زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل ہو سکیں ۔
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ سعودی عرب-چین تعلقات اس وقت اچھی ترقی کر رہے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان جامع اسٹریٹجک شراکت داری گہری ہو رہی ہے، اور عملی تعاون کے نتائج مثبت ہیں۔ سعودی عرب چین کی عظیم ترقیاتی کامیابیوں کو بہت سراہتا ہے اور چین کے ساتھ قریبی اعلیٰ سطحی تبادلہ کرنے ، چین کے جدید تجربے سے سیکھنے، معیشت، تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، سرکلر اکانومی اور دیگر شعبوں میں تعاون کو گہرا کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ باہمی فائدے اور جیت جیت کے نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ فریقین نے مشرق وسطیٰ اور افغانستان کی صورتحال سمیت بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
