ایسل الہام
موسمیاتی گورننس تجزیہ کار
ایک ایسی دنیا میں جہاں ہر چیز تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، گراما نامی کچھوا اپنی ہی رفتار سے چلتی رہی آہستہ، پُرسکون، اور وقار کے ساتھ۔ 1884 میں پیدا ہونے والی گراما نے 2025 میں وفات پائی، اور یوں تین صدیوں پر محیط زندگی گزار کر وہ نہ صرف ایک جاندار بلکہ ایک زندہ تاریخ بن گئی۔ اس نے سلطنتوں کے عروج و زوال، ہوائی جہاز اور انٹرنیٹ کی ایجاد، اور زمین کے بدلتے موسموں کو خاموشی سے دیکھا۔ اس کی زندگی صرف طویل نہیں تھی، بلکہ زمین کے بدلتے ہوئے مزاج کی ایک خاموش گواہی بھی تھی۔
جب سان ڈیاگو چڑیا گھر نے اپنی سب سے معمر رہائشی کو الوداع کہا، تو دنیا نے ایک لمحے کو رک کر سوچا۔ گراما صرف ایک کچھوا نہیں تھی وہ استقامت، پُرامن بڑھاپے، اور اس خاموش حکمت کی علامت تھی جو صرف وقت کے ساتھ آتی ہے۔ اس کی موت صرف ماہرینِ حیوانات یا جانوروں سے محبت کرنے والوں کے لیے نقصان نہیں، بلکہ ہم سب کے لیے ایک اجتماعی لمحۂ فکریہ ہے جو اس نازک سیارے پر سانس لیتے ہیں۔
گراما کا تعلق گیلاپیگوس کچھووں کی نسل سے تھا، جو کبھی ہزاروں کی تعداد میں ایکواڈور کے آتش فشانی جزیروں پر پائے جاتے تھے۔ مگر انسانی مداخلت، غیر ملکی انواع، اور موسمیاتی تبدیلی نے ان کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، بارشوں کے غیر متوقع پیٹرن، اور سمندر کی سطح میں اضافہ اب ان نازک ماحولیاتی نظاموں کو متاثر کر رہے ہیں جنہوں نے گراما جیسے جانداروں کو صدیوں تک پناہ دی۔ اس کی موت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ حتیٰ کہ سب سے زیادہ پائیدار مخلوقات بھی ایک ایسی دنیا میں غیر محفوظ ہو سکتی ہیں جو توازن کھو چکی ہو۔
پاکستان میں بھی ہم اسی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب ہوں یا حالیہ برسوں کی شدید گرمی کی لہریں موسمیاتی تبدیلی اب کوئی دور کا خطرہ نہیں بلکہ ایک روزمرہ حقیقت بن چکی ہے۔ ہمارے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، دریا سکڑ رہے ہیں، اور حیاتیاتی تنوع خطرے میں ہے۔ سندھ ڈیلٹا، جو کبھی زندگی کا گہوارہ تھا، اب سمندر کی چڑھتی سطح اور اوپر کی سطح پر پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث پیچھے ہٹ رہا ہے۔ کئی بستیاں صرف جنگ یا سیاست نہیں بلکہ پانی کی زیادتی یا قلت کے باعث اجڑ رہی ہیں۔ ایسے میں گراما کی یاد ہمیں ایک اور سبق دیتی ہے: کہ بقا کی کنجی تیز رفتاری میں نہیں بلکہ ہم آہنگی میں ہے۔
گراما کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہمیں بھی اپنے فیصلوں میں ٹھہراؤ اور دور اندیشی اپنانی ہوگی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ترقی اکثر پائیداری سے آگے نکل جاتی ہے، ہمیں سست روی میں حکمت تلاش کرنی ہوگی۔ ہمیں اگلے انتخابات نہیں بلکہ اگلی صدی کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ پاکستان نے کچھ اہم اقدامات کیے ہیں جیسے بلین ٹری سونامی، لیونگ انڈس انیشی ایٹو، اور موسمیاتی لحاظ سے مضبوط انفراسٹرکچر کی کوششیں۔ یہ صرف پالیسی نہیں بلکہ امید کے بیج ہیں۔ مگر ہمیں مزید آگے بڑھنا ہوگا۔
ہمیں ہر شہر میں شہری جنگلات اور سبز راہداریاں درکار ہیں صرف خوبصورتی کے لیے نہیں بلکہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے۔ ہمیں قدرتی حل اپنانے ہوں گے جیسے دلدلی علاقوں کی بحالی، بارش کے پانی کو محفوظ کرنا، اور ایسے جنگلی حیات کے راستے بنانا جو بدلتے موسموں میں جانوروں کو نقل مکانی کی سہولت دیں۔ ہمیں ایسی ماحولیاتی تعلیم کی ضرورت ہے جو صرف سائنسی معلومات نہ دے بلکہ فطرت کے لیے احترام بھی سکھائے خاص طور پر ان جانداروں کے لیے جو آہستہ چلتے ہیں، طویل جیتے ہیں، اور خاموشی سے ہمیں زندگی کے گہرے سبق سکھاتے ہیں۔
گراما کی موت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سب سے طاقتور وجود ہمیشہ شور مچانے والے نہیں ہوتے۔ اس کی خاموشی میں ایک ٹھنڈی، پُرسکون زمین کی یاد تھی۔ اس کی مضبوطی میں یہ پیغام تھا کہ اصل طاقت غلبے میں نہیں بلکہ بقائے باہمی میں ہے۔ اس کی زندگی صدیوں کو جوڑنے والا ایک پل تھی زمین کی برداشت کی زندہ علامت اور ایک انتباہ کہ اگر ہم نے احتیاط نہ کی تو یہ طویل زندگیاں بھی وقت سے پہلے ختم ہو سکتی ہیں۔
آئیے ہم اسے صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عمل سے خراجِ تحسین پیش کریں۔ آئیے ایسا پاکستان بنائیں جہاں آنے والی نسلیں انسان ہوں یا دیگر مخلوقات سکون، حکمت، اور ہم آہنگی سے جی سکیں۔ آئیے یاد رکھیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی دوڑ میں شاید جیت اب بھی کچھوے کی ہو۔ گراما کی یاد میں، ہمیں چاہیے کہ ہم رکیں، سنیں، اور عمل کریں نہ کہ جلد بازی میں، بلکہ اس دانائی کے ساتھ جو صرف وقت اور زمین سے محبت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔
