Monday, July 7, 2025
ہومپنجابآرٹیکل 62 اور 63 آمریت کی نشانی، نکال کر پھینک دیں: سپیکر پنجاب اسمبلی

آرٹیکل 62 اور 63 آمریت کی نشانی، نکال کر پھینک دیں: سپیکر پنجاب اسمبلی

لاہور(آئی پی ایس) سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 62 اور 63 آمریت کی نشانی ہے، جسے جمہوریت کیخلاف استعمال کیا گیا، میں آرٹیکل 62 اور 63 کا شدید مخالف ہوں، چاہیں تو انہیں نکال کر پھینک دیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ آئین کی ان دفعات کا من پسند استعمال کیا جائے۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ ہمیشہ کوشش کی کہ اپنے کردار کو بھرپور ذمہ داری سے نبھا سکوں، میری زندگی ان ہی اسمبلیوں اور قواعد کے مطابق گزری۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے کچھ ممبرز کو نوٹس بھی بھجوائے، اسمبلی کو قواعد کے مطابق چلنا ہے، ایوان میں اپوزیشن ارکان کو بولنے کا بھی پورا موقع دیا، مجھے اس ہاؤس میں آئے 2 دہائیاں ہوچکی ہیں، ایک بھی بجٹ تقریر آج تک نہیں سن سکا، کسی ایک وزیر خزانہ کی تقریر بھی میرے حافظے میں نہیں، اسمبلی میں ہنگامہ آرائی، وزیر خزانہ پر حملے تک بات چلی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا اس صوبے کے 12 کروڑ لوگوں کے حقوق نہیں ہیں؟ پارلیمنٹ یا اسمبلیاں ڈیڈ ہاؤس نہیں ہوتے وہاں زندہ لوگ بیٹھتے ہیں، میں نے ہمیشہ اچھے کسٹوڈین کا کردار ادا کیا، میں نے آئین کی حرمت کا حلف اٹھایا ہے، مجھ پر ایک آئینی ذمہ داری ہے، میں نے 15 ماہ میں اپوزیشن کی ہر بات کو ترجیح دی ہے، ہنس کر ہر بات اور تنقید کا جواب دیا۔
ملک احمد خان نے کہا کہ ماضی میں کچھ غلطیاں مجموعی طور پر ہوئیں جس کے نتائج بھگتے، میری رولنگ کے خلاف بہت کچھ کہا گیا، بہت کچھ لکھا گیا، بجٹ تقاریر کے دوران اتنی ہنگامہ آرائی ہوتی رہی کہ تقریر نہیں سنی جا سکی۔
سپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ کیا آئین میں نے لکھا ہے، میں تو خود 62 اور 63 کا مخالف ہیں، میں تو کہتا ہوں اس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دو یہ آمریت کے دور کی نشانی ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ آئین کی ان دفعات کا من پسند استعمال کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ میرا مقدمہ تو پنجاب کے 12 کروڑ لوگوں کے حق کا ہے، میں ہمیشہ اسمبلی کی حرمت اور 12 کروڑ لوگوں کے حق نمائندگی کی بات کروں گا، ہمیشہ یہ راستہ نہیں کھولنا چاہتا تھا کہ اراکین کو معطل کر دیا جائے، میں اپنے آئینی اختیارات سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھوں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی ساری جمہوریت کیا ہمارے خلاف جاگتی ہے؟ میں ایوان کے ہر رکن کو اس کا حق دلانا چاہتا ہوں، ایوان کے معزز ارکان نے خود اسمبلی قوانین بنائے ہیں، میں تو اسمبلی کی حرمت اور حق کا تحفظ کر رہا ہوں، اسمبلی کسی کی احتجاج گاہ نہیں ہے۔

ملک احمد خان نے کہا کہ پانامہ کیس کا فیصلہ عدالت پر سوالیہ نشان ہے، اگر وزیراعظم کو غلط بیانی پر نا اہل کیا جاسکتا ہے تو ایوان کو تماشا بنانے والوں کو کیوں نہیں، پانامہ کیس کے فیصلے میں آصف سعید کھوسہ نے سپیکر کو یہ اختیار دیا کہ وہ نشست کو خالی قرار دے، اس اسمبلی کو تماشہ گاہ نہیں بننے دیں گے۔
سپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ میں ایک سیاسی آدمی ہوں، میری بنیاد کسی رکن کی معطلی پر نہیں کھڑی ہوئی، ابھی میری ساری توجہ اس چیز پر ہے کہ ایوان کو کیسے چلانا ہے، کیا ان لوگوں کا دماغ کام کر رہا ہے جو میرے ریفرنس پر اعتراض اٹھا رہے ہیں؟ میں کسی کے حق نمائندگی کو چھیننے کے حق میں نہیں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ یہ مانتا ہوں کہ ایوان میں ہنگامہ آرائی ہوسکتی ہے مگر اسے آرڈر آف دی ڈے نہیں بنایا جاسکتا، ہاؤس میں گندے فحش اشاروں کی اجازت نہیں دوں گا، نہیں چاہتا کہ کل مجھے بھی کوئی ایسا لکھے جیسے آصف سعید کھوسہ کو لکھا گیا،
آج بات ہورہی ہے کہ اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں کا کردار کیا ہوگا اس کو سراہتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا کوئی آپ کو اسمبلی میں گالیاں دینے کیلئے بھیجتا ہے، آپ ان اقدامات سے کسی تیسرے نظام کو گنجائش پیدا کر کے دے رہے ہیں؟ آپ کا لیڈر آج جیل میں ہے تو جاؤ عدالت میں بات کرو باقی بھی جاتے تھے، جیلوں میں بیٹھے لوگوں کی ماؤں کے جنازے اٹھے ہیں، میرے پاس جو آئین کی دفعہ 63اے میں لکھا ہے وہ پڑھ کر سنا دیا ہے۔
ملک احمد خان نے کہا کہ کیا آصف زرداری کو اسمبلی میں شورشرابے سے کوئی ریلیف ملا ہے؟ کیا نوازشریف، شہبازشریف یا کسی اور کو اسمبلی میں شورسے فائدہ ہوا ہے، میرے پاس خاتون رکن اسمبلی کی ہراسانی سے متعلق درخواست آئی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔