اسلام آباد:سپریم کورٹ میں 10 رکنی آئینی بینچ کی سماعت کے دوران وکلا اور ججز کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ عدالت نے کیس کی سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، تاہم وکیل حامد خان نے بینچ پر اعتراض کر دیا۔
دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ نے گزشتہ روز میرے مینٹور قاضی فائز عیسیٰ کا نام لیا، سٹنگ ججز پر الزامات عائد کیے، آپ کو کس نے حق دیا؟ آپ نے کل سپریم کورٹ کو ڈی چوک بنا دیا۔
حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ 10 رکنی بینچ اس کیس کی سماعت نہیں کر سکتا۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ یہ کس قانون کے تحت کہہ رہے ہیں؟ ہمیں وہ قانون بتائیں۔
جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ ہم بارہ کے بارہ کیس سنیں گے، تقریبا کیس کنکلوڈ ہو چکا ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ عزت سے عزت ملتی ہے، آج آپ کی عزت ہے تو سپریم کورٹ کی وجہ سے ہے۔ آج ہم ہیں، کل ہم نہیں ہوں گے۔
حامد خان نے کہا کہ ’آپ غصے میں ہیں، کیس نہ سنیں‘، جس پر جسٹس امین الدین نے جواب دیا کہ ہم نے بینچ بنا دیا ہے، آپ کو اعتراض ہے تو بتا دیں۔
حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ 13 رکنی بینچ کے فیصلے پر نظرثانی کو 12 رکنی بینچ نہیں سن سکتا، تاہم جسٹس امین الدین نے اعتراض مسترد کر دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل دلائل دے چکے تھے، آپ کے پاس بات کرنے کا حق نہیں تھا۔ ہم نے آپ کو عزت دی۔
حامد خان نے الزام لگایا کہ ’آپ میری زبان بندی کر رہے ہیں‘، جس پر عدالت نے واضح کیا کہ سنی اتحاد کونسل نے فیصل صدیقی کو وکیل مقرر کیا ہے، آپ کو نہیں۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آپ کے پاس 10 منٹ ہیں، بات کرنی ہے تو کریں، ورنہ بیٹھ جائیں۔ ہم رولز، قانون اور آئین کے مطابق چلیں گے۔ کوئی غیر متعلقہ بات نہیں سنیں گے۔
دوران سماعت جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ ہم آپ کو اچھا وکیل سمجھتے ہیں، لیکن جو آپ کر رہے ہیں وہ اچھے وکیل والی بات نہیں۔
حامد خان نے جواب دیا آپ کو کوئی حق نہیں ایسی بات کہیں۔ جس پر جسٹس مندوخیل نے تنبیہ کی کہ ’ایسا نہیں کہ ہمیں سختی کرنا نہیں آتی‘۔
مزید دلائل دیتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ ’جوڈیشل کمیشن بینچ بناتا ہے‘، جس پر جسٹس مندوخیل نے پوچھا ’جوڈیشل کمیشن کس قانون کے تحت بینچ بناتا ہے؟‘
حامد خان نے جواب دیا کہ ’26ویں ترمیم کے تحت، آرٹیکل 191 اے کے تحت بینچز بنتے ہیں۔
جسٹس مندوخیل نے جواباً کہا کہ آپ 26ویں ترمیم کے مخالف ہیں، تو اس پر کیسے انحصار کر رہے ہیں؟‘
حامد خان نے کہا کہ اسی لیے کہا تھا کہ 26ویں ترمیم پر پہلے فیصلہ کر دیں۔
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ قانون کا حوالہ دیں گے تو آپ کو کل تک سنیں گے۔
جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ ہم نے آپ کا نکتہ نوٹ کر لیا، آگے بڑھیں۔
دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ نے گزشتہ روز میرے مینٹور قاضی فائز عیسیٰ کا نام لیا، سٹنگ ججز پر الزامات عائد کیے، آپ کو کس نے حق دیا؟ آپ نے کل سپریم کورٹ کو ڈی چوک بنا دیا۔
بینچ ٹوٹ گیا
قبل ازیں سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں پر آئینی بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تاہم ۔جسٹس صلاح الدین پنوار کی بینچ سے علیحدگی کے بعد 11 رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔
سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل حامد خان نے دلائل کا آغاز کیا، تاہم اسی دوران جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ’حامد خان صاحب، آپ سن رہے ہیں؟ آپ کو آواز آرہی ہے یا نہیں؟‘۔
جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ ’جی میں سن رہا ہوں‘۔
جسٹس پنہور نے کہا کہ 2010 سے ہمارا ساتھ رہا ہے، مگر آپ کی طرف سے میرے بینچ میں بیٹھنے پر اعتراض افسوس ناک ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جن ججز پر 26ویں آئینی ترمیم کے بعد بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض کیا گیا، ان میں میں بھی شامل ہوں۔
جسٹس پنہور نے عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی فریق کو بینچ پر اعتراض ہو تو یہ مناسب نہیں کہ ہم بیٹھے رہیں۔
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ میں ان وجوہات کی بنا پر اس بینچ کا مزید حصہ نہیں رہ سکتا۔
بینچ ٹوٹنے کے بعد عدالت نے سماعت میں 10 منٹ کا وقفہ کر دیا۔
پس منظر:
سپریم کورٹ نے حالیہ فیصلے میں ۔سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے سے انکار کیا تھا، جس کے بعد سنی اتحاد کونسل سمیت دیگر متعلقہ فریقین نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
کیس کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ مخصوص نشستیں پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں پارلیمانی طاقت کے توازن کو متاثر کرتی ہیں۔
آج کی سماعت میں بینچ کے اندر اختلاف رائے اور اعتراضات کے بعد ایک بار پھر آئینی معاملات پر عدلیہ کے اندرونی اتحاد اور غیرجانب داری پر بحث چھڑ گئی ہے، جس کے سیاسی اور قانونی اثرات آنے والے دنوں میں مزید نمایاں ہو سکتے ہیں۔